ملک کا بڑا علاقہ کئی روز سے طوفانی بارشوں کے باعث تباہی اور سیلابی صورتحال سے دوچار ہے، خیبرپختونخوا، پنجاب،بلوچستان کے کئی علاقے اور کراچی بادلوں کے پھٹنے سے ہونے والی اچانک بارشوں کا شکا ر ہیں، کے پی کے کا بیشتر حصہ تباہ حال، راولپنڈی ، کراچی میں بھی اندوہناک اور خوفناک مناطر پیش آ ئے اور ایک ہم ہیں کہ مقدمہ مقدمہ اور سزائوں کا کھیل کھیل رہے ہیں، ہم ایسی عاقبت نا اندیش قوم ہیں کہ وقت پر کوئی کام ہم سے نہیں ہو پاتا،بارشی اور سیلابی تباہی سالوں کے وقفوں سے ہمارا ناقابل تلافی نقصان کر دیتی ہے مگر ہم قبل از وقت بچنے کا اقدام کرنے کی بجائے چپ سادھے اگلی تباہی کا انتظار کرتے رہتے ہیں، اصل قیادت خطرے کو بھانپ کر اس کا مقابلہ کرنے کی استطاعت پیدا کرتی ہیں اور نقصانات کو کم سے کم کرنے کی سعی کرتی،قدرت نے ہم کو پانچ موسم دئیے،پانی کے ایسے ذخائر عطا کئے جو سردی کے موسم میں پہاڑوں پر ہونے والی برفباری کواپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں اور گرمیوں میں یہ برف پگھل کر ملک کے بیشتر علاقوں کو سیراب کرتی ہے، مگر ہم نے پہاڑوں سے اترنے والے بارشی پانی کو کار آمد بنانے کے انتظامات نہ کئے،اس کے باوجود کہ ہم پانی کی قلت سے دوچار ہیں،قوم کا ایک قابل قدر حصہ پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے اور ہماری ناقص پلاننگ سے یہی پانی وقت بے وقت ہمیں پانی پانی کر دیتا ہے۔
ہمارے ہاں پانی کو ذخیرہ کرنے کا قدرتی نظام موجود ہے،پہاڑی سلسلہ سے میدانی علاقہ تک آتے آتے ہم بیسیوں مقامات پر پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں،درجنوں مقامات پر ہائیڈل پاور پلانٹ نصب کر کے سستی بجلی ضرورت سے زائد پیدا کر سکتے ہیں،مگر پانی کے ذخائر بنانے اور سستے پاور پلانٹ لگانے پر کمیشن ملتی ہے نہ کک بیکس،اس لئے سالوں سے ہم بارشوں اور پہاڑوں سے آنے والے پانی کو سمندر برد کر رہے ہیں،پانی کے مسئلہ پر صوبوں میں بھی اتفاق رائے نہیں آج پون صدی بعد بھی صوبے اس معاملہ پر باہم دست و گریبان ہیں،قوم کو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ مخلوط حکومت بن جاتی ہے اقتدار کی بندر بانٹ ممکن ہو جاتی ہے تو پانی کی تقسیم کا مسئلہ آج تک حل طلب کیوں ہے؟اس کی واحد وجہ ، ہم انسانوں کا ہجوم آج تک قوم نہیں بن سکے اور ہمارے حکمران پاکستانی نہیں بن سکے۔
قومیں ہمیشہ مصیبت میں ہی متحد اور یکجا ہوتی ہیں،آج خیبرپختونخوا میں ہزاروں لوگ بے گھر ہو چکے،سینکڑوں جان سے گئے، کھڑی فصل تباہ ہو گئی،جو گھر بنیادوں پر قائم ہیں ان میں پانی بھرا پڑا ہے،لوگ بچوں سمیت کھلے آسمان تلے موسم کی شدت اپنے جسموں پر جھیل رہے ہیں،کوئی سایہ ہے نہ شکم بھرنے کا سامان،بہت سے تو پینے کے پانی کو ترس گئے،مگر ہم ہیں کہ بے حس بنے ٹی وی سکرین پر یہ دلدوز مناظر دیکھ رہے ہیں مگر ہمارا احساس پھر بھی نہیں جاگتا،سیاستدان اقتدار کا کھیل کھیلتے طوفان نوح کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔
مسلح افواج اس آسمانی آفت میں اپنی روائت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف کار ،فوجی جوان ہیلی کاپٹروں کے ذریعے خیموں کھانے پینے کی اشیاء کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں میڈیکل کیمپ لگا کر متاثرین کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں،پل اور سڑکیں ٹھیک کر رہے ہیں۔
قدرتی آفات ہمیشہ انسانی زندگی کیلئے ایک چیلنج رہی ہیں، زلزلے، طوفان، سیلاب، جنگلاتی آگ اور لینڈ سلائیڈنگ جیسی آفات دنیا کے ہر خطے میں کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں، ان میں سے ایک نسبتاً کم سمجھی جانے والی لیکن نہایت خطرناک آفت کلائوڈ برسٹ یعنی بادلوں کا پھٹنا ہے، حالیہ دنوں میں پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں بالخصوص جبکہ پنجاب اور کراچی جیسے علاقوں میںبالعموم بارشوں کے دوران بارہا ایسی خبریں آئی ہیں کہ اچانک بادل پھٹنے سے گائوں کے گائوں بہہ گئے، سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، جبکہ کھڑی فصلیں، مویشی اور انفراسٹرکچر برباد ہو گیا۔
کلائوڈ برسٹ کو عام الفاظ میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی علاقے کے اوپر اچانک محدود وقت میں غیر معمولی مقدار میں بارش کا برس جانا، سائنسی طور پر اگر کسی جگہ پر ایک گھنٹے میں 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہو تو اسے کلائوڈ برسٹ کہا جاتا ہے، اس میں بادل ایک ہی مقام پر پھٹ کر اس قدر تیز بارش برساتے ہیں کہ زمین، نالے اور دریا اتنی زیادہ مقدار کو سنبھالنے کے قابل نہیں رہتے اور پانی طوفانی ریلے کی شکل میں تباہی مچا دیتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر کلائوڈ برسٹ کا سامنا شمالی علاقہ جات اور خیبرپختونخوا کو ہوتا ہے، کیونکہ یہاں بلند پہاڑ، تنگ وادیاں اور مون سون ہوائیں مل کر ایسے حالات پیدا کرتی ہیں جو کلائوڈ برسٹ کو جنم دیتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع مثلاً سوات، شانگلہ، دیر اور چترال میں شدید بارشوں اور کلائوڈ برسٹ کے باعث سینکڑوں افراد جاں بحق اور ہزاروں متاثر ہوئے، درجنوں دیہات مکمل طور پر پانی میں بہہ گئے، مویشی مر گئے، سڑکیں اور پل ٹوٹ گئے، جبکہ کھڑی فصلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
ماہرین کے مطابق جب نمی سے بھری مون سون ہوائیں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں تو یک دم بلند ہو کر ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، اس عمل سے بادل شدید بارش برساتے ہیں جو بعض اوقات کلائوڈ برسٹ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں، دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ رہا ہے، نتیجتاً بارشیں زیادہ شدت اور غیر متوقع انداز میں برسنے لگی ہیں، پاکستان اس تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہو رہا ہے،جنگلات کی کٹائی، پہاڑوں کی غیر منصوبہ بند کھدائی، دریائوں کے کناروں پر غیر قانونی تعمیرات اور نکاسی آب کے نظام کی کمی بھی ان نقصانات میں اضافہ کرتی ہے،پاکستان میں کلائوڈ برسٹ اور بارشوں سے ہونے والے نقصانات کی بڑی وجہ صرف قدرتی آفات نہیں بلکہ انتظامی ناکامیاں بھی ہیں۔
پاکستان میں کلائوڈ برسٹ جیسی قدرتی آفات کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں لیکن ان کے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے، اس کیلئے جدید ریڈار، سیٹلائٹ ڈیٹا اور موسمیاتی ماڈلز کی مدد سے کلائوڈ برسٹ کے امکانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، حکومت کو چاہیے کہ محکمہء موسمیات کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرے،ہر ضلع میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل قائم کیے جائیں، جہاں تربیت یافتہ افراد اور مشینری موجود ہو تاکہ بروقت امداد ممکن ہو، دریائوں کے کنارے، برساتی نالوں اور وادیوں میں غیر قانونی تعمیرات کو ختم کیا جائے تاکہ پانی کے بہائو میں رکاوٹ نہ آئے۔ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہونا صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایسے خاندانوں کا غم ہے جو ہمیشہ کیلئے بکھر جاتے ہیں، یہ آفات ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم قدرتی نظام کے ساتھ کھیل کر اپنے ہی لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں،حکومت کو فوری طور پر جامع حکمت عملی اپنانا ہو گی ورنہ ہر سال یہی کہانی دہرائی جائے گی کہ ’’بادل پھٹنے سے سینکڑوں اموات ہو گئیں اور دیہات پانی میں بہہ گئے‘‘۔یہ وقت ہے کہ ہم ان سانحات کو تقدیر کے لکھے کے بجائے انسانی غفلت کا نتیجہ سمجھیں اور مستقبل کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں۔