بالِ جبریل کی تیسری نظم (2)

Jul 21, 2017

پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر

ان مظاہر قدرت میں مزید تاب داری پیدا کرنے کی تمنا در اصل عشق حقیقی کے اعتبار سے اس بات کی خواہش ہے کہ اے اللہ! تو اپنے حسن لازوال کے وہ کرشمے دکھا کہ میں ان مظاہر مَیں ایسا مستغرق ہو جاؤں کہ حسن کے جلوؤں میں ایسا ڈوب جاؤں کہ مجھے ہر طرف صرف اور صرف اللہ ہی نظر آئے اور مَیں ماسوا اللہ سے بالکل بے نیاز ہو جاؤں مجھے ہر چیز میں اللہ ہی اللہ کا جلوہ نظر آئے اور میں ماسوا اللہ سے یکسر کٹ کر صرف اللہ ہی کا ہو رہوں۔دوسرے مصرعے کے چار الفاظ غور طلب ہیں:
ہوش۔ خرد۔ قلب اور نظر
ہوش سے مراد شعور ہے جو انسان کو اس کے حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے۔ شعور کی معراج عقل ہے۔ شعور سے علم حاصل ہوتا ہے۔ عقل اس شعور سے نتائج اخذ کر کے راستے متعین کرتی ہے۔قلب سے مراد وجدان ہے۔ یہ وجدان حواس خمسہ سے بے نیاز ہو کر اشیاء کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔ یہ قوت متخیلہ ہے اور اسی قوت متخیلہ پر عقل فیصلوں کا مدار رکھتی ہے۔ گویا اے اللہ! میں تیری ذات کی کرشمہ سازیوں میں اتنا منہمک ہو جاؤں کہ میرے حواس۔ عقل ۔ میرا دل اور میری نظر اور اس کے فیصلے سب تیری ذات کی پہچان بن جائیں اور یہ چاروں قوتیں مجھے تیری ذات ہی کا پتہ بتائیں اور مَیں ہر چیز ماسوا اللہ سے کٹ جاؤں۔ ہر چیز میں تیرا ہی مشاہدہ اور عکس نظر آئے تو گویا یہ ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ‘‘ کی وضاحت ہے۔
ہم نے شروع میں کہا بال جبریل کے یہ اشعار ، الفاظ و تراکیب کے حوالے سے غزل اور نظم کا امتزاج ہیں نیز اس میں عشق مجازی اور عشق حقیقی دونوں کا رنگ موجود ہے:پہلے شعر میں:
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
اس شعر میں گیسو ان کے پیچ و خم اور آب و تاب اسی طرح ہوش خرد قلب و نظر اور ان کا شکار کرنا حقیقت اور مجاز دونوں کا غماز ہے۔جب ان تراکیب کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس کا عمود حدیث ذیل سے ماخوذ ہو گا۔ فرمایا:
’’اللہ خوبرو ہے اور خوبصورتی ہی کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اس ضمن میں قرآن کی آیت کشف ساق سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:
تو ہے محیطِ بے کراں، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
اے اللہ! تو ایک ایسا سمند ر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ اب اے اللہ! تو میرے اندر وہ صفات پیدا کر دے جس سے اپنی صفات مومنانہ سے تیرے نام کی عظمت کو اور اجاگر کر سکوں تاکہ تیرے اچھے اعمال کے ذریعے سے عظمت اسلام اجاگر ہو سکے۔ مراد یہ ہے کہ اے اللہ! تو مجھ کو اپنے رنگ میں رنگ دے تاکہ مَیں بھی غیر محدود ہو جاؤں اور میرا فکری فیض بھی عام ہو جائے۔ میرا فکری فیض ذاتی نہیں بلکہ تیرے فکر ہی کا پرتو ہے جو کہ میں تیری فکری کتاب قرآن مجید سے حاصل کر رہا ہوں۔ قرآن مجید میں ہے:
’’اللہ کا رنگ، بھلا اللہ کے رنگ سے زیادہ حسین رنگ اور کون سا اور کس کا ہو سکتا ہے اور انسان اس رنگ میں رنگین ہو کر اصلاً اسی کے عبادت گزار بندے بن سکتے ہیں۔‘‘

اقبال اسی آیت قرآنی سے اور اس کی مماثل دیگر آیات کی تحریک سے منفعل ہو کر اپنی قلبی تحریک کو اس شعر کی زبان عطا کرتے ہیں۔ اس تحریک کے اشارات اقبال کے کلام میں بعض اور مقامات پر بھی ملتے ہیں۔مثلاً آپ فرماتے ہیں:
فرصت کشمکش مدہ ایں دل بے قرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تاب دار را
اسی طرح علامہ فرماتے ہیں:
فقر مومن چیست تسخیر جہات
بندہ از تاثِیراُو مولا صفات
چوتھے شعر میں علامہ فرماتے ہیں:
مَیں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہُر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہرِ شاہوار کر
اقبال اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اگر میرے اندر کوئی خوبی ہے کوئی حقیقت ہے تو وہ تیرا کرم تیری مہربانی۔ تیرے التفات ہی کی وجہ سے ہے۔ اے اللہ! تو اس التفات اور کرم نوازی کی دولت مستقل عطا کرتے رہیو اور اس دولت کو مجھ سے میری کسی خامی کی وجہ سے چھین نہ لی جیو کہ مَیں اس کرم گستری سے محروم کر دیا جاؤں اور اگر مَیں صفات بندگی سے عاری ہوں تو اے اللہ! تو مجھے اس گوہر لازوال سے مالا مال فرما دے۔
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرکِ بہار کر
اس شعر میں دل میں مچلی ایک نیک خواہش کا اظہار مقصود ہے، علامہ فرماتے ہیں کہ اے اللہ! میری زندگی کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ مَیں اسی مقصد کے حصول کے لئے زندگی کے سانس پورے کر رہا ہوں۔ اس حوالے میں اقبالی فکر قرآن کی اس آیت سے نمو پکڑتی ہے:
ترجمہ:’’آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری قربانیاں اور میری زندگی اور موت سب کا مقصود و محور صرف اور صرف احیائے کلمۃ اللہ ہے ۔ اللہ کے سوا کچھ نہیں میں اسی لیے مسلمان ہوں اے میرے اللہ! مَیں نے عمر بھر اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کر دیں میری خواہش تھی کہ مَیں اپنی زندگی میں مسلمانوں کا عروج تیرا کلمہ چار دانگ عالم میں بلند ہوتے دیکھ لوں۔ علامہ فرماتے ہیں:
تانہ آمد بانگِ حق از عالمے
گر مسلمانی نیاسائی دمے

جب تک چار دانگ عالم میں اللہ کا کلمہ یعنی اسلام غالب نہ آ جائے اور یہ صورت حال میں اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکوں تو اے میرے اللہ! کم از کم مجھے یہ خوش خبری کسی طرف سے مل جائے کہ مستقبل قریب میں اسلام غالب آ کر رہے گا۔
علامہ کی یہ خواہش ان کی زندگی میں پوری ہو گئی اورعلامہ نے نہ سہی روح علامہ نے اور مسلمانوں نے ایک علیحدہ مملکت پاکستان کی شکل حاصل کرنے کی نوید ضرورسنی اور 14اگست1947ء میں خوش خبری اقبال کو نہیں تو محبین اقبال نے ضرور سن لی او رپھر قرار داد مقاصد کی منظوری یقیناًروح اقبال کے لیے باعث سکون ہوئی ہو گی:
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر
اس شعر میں خالق کائنات سے محبت آمیز گلہ بھی ہے ناز بھرا شکوہ بھی ہے۔ اللہ کی ذات سے دل میں چھپی اندرونی دلی خواہش کا اظہار بھی ہے۔ فرمایا: اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں تو نے مجھے اشرف المخلوقات کے عظیم مرتبے پر فائز کیااور مجھے اشرف المقام یعنی جنت عطا کی مجھے وہاں رہنے کا حکم دیا لیکن پھر تو نے مجھے وہاں سے بے دخل بھی کیوں کیا۔ مصلحتوں کا جاننے والا تو تو ہی ہے۔ مانا مجھ سے قصور ہو گیا تھا لیکن تیرا دامان عفو بھی تو وسیع تھا اور ہے۔ میرے قصور کی اتنی کڑی سزا کہ مجھ سے ساری مراعات چھین لیں۔حتیٰ کہ رہنے کا حق بھی سلب ہو گیاآخر کیوں؟علامہ کی یہ فکری پرواز قرآن کی اس آیت کی کس قدر ترجمان ہے:
اقبال محبت بھرا شکوہ پیش کرتے ہیں کہ:
اے اللہ! تو مجھے جنت سے نکال کر بے چینی محسوس کر رہا ہو گا۔ کار جہاں طویل سفر ہے، طویل مسافت ہے، کب قیامت قائم ہو گی حیات بعد الممات کی گھڑی کب آئے گی۔کب میدان حشر قائم ہو گا۔کب حساب کتاب ہو گا۔ اب جیسا بھی ہے اے اللہ! اب آپ کو یہ فراق کی گھڑیاں طوعاً و کرھاً گزارنا ہوں گی۔ اب دنیا میں رہتے ہوئے میرا دامن گناہوں سے آلودہ ہوتا ہی رہے گا۔
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر
لیکن اے میرے رب! جب میں اپنا عصیاں سے بھرا دامن لے کر تیرے دربار میں حاضری دوں تو مجھے اور تجھے شرمساری کا سامنا کرنا ہی پڑے گا جس کے سوا چارہ نہیں۔اسی ضمن میں علامہ اقبال ایک اور جگہ اپنے دل میں چھپی خواہش کا اظہار بھی کر دیتے ہیں:

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو بینی را حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصؐطفی پنہاں بگیر

مزیدخبریں