واپڈا میں کیا ہو رہا ہے؟

Jul 21, 2025

محسن گواریہ

 پاکستان میں واپڈا ایک ایسا نام ہے جو دہائیوں سے عوام کی زندگی کا حصہ ہے، کبھی اسے ترقی، توانائی اور پانی کے ذخائر کی علامت سمجھا گیا،کبھی اسے کرپشن، بدانتظامی اور لوڈشیڈنگ کے طعنے سننا پڑے،اس ادارے کا مقصد ملک میں پانی اور بجلی کے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنا اور ان شعبوں میں ترقی لانا تھا۔ ابتدا میں منگلا، تربیلا، غازی بروتھا جیسے منصوبوں نے واپڈا کو ایک فعال ادارے کے طور پر روشناس کرایا مگر گزرتے وقت کے ساتھ ادارے میں سیاسی مداخلت، مالی بدعنوانی اور سفارشی بھرتیاں ایک عام روایت بن گئیں، آئے دن میڈیا میں واپڈا افسروں کی بدعنوانی پر مبنی خبریں آتی ہیں، مگر نتیجہ؟ خاموشی۔واپڈا کا ایک اور اہم شعبہ پانی کے ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر و نگہداشت ہے، مگر یہاں بھی صورتحال مایوس کن ہے،ہر سال قیمتی بارشوں اور برفانی پانی کا بڑا حصہ سمندر برد ہو جاتا ہے، کیونکہ واپڈا کوئی نیا بڑا آبی ذخیرہ بنانے میں ناکام رہا ہے، وہ ادارہ جو روشنی بانٹنے کے لئے قائم کیا گیا تھا،آج اندھیرے کا استعارہ بن چکا ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر نیت، حکمت عملی اور نڈر قیادت ہو تو واپڈا کو ایک مرتبہ پھر فعال، شفاف اور عوام دوست ادارہ بنایا جا سکتا ہے۔

20جون کی شام چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل(ر) سجاد غنی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا، وزارت آبی وسائل نے واپڈا کے ممبر فنانس جو آڈٹ اینڈ اکاونٹس سروس کے گریڈ 20کے افسر ہیں کو چیئرمین واپڈا کا اضافی چارج سونپ دیا،انہوں نے پہلے ہفتے میں ہی واپڈا میں اس نوعیت کی جوہری تبدیلیاں کیں کہ سب کو ایسے محسوس ہونے لگا کہ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین کو دوبارہ واپڈا کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے، جنرل مزمل کو پی ڈی ایم کی حکومت آنے پر 2022ء میں عہدہ چھوڑنا پڑا تھا، کیونکہ ان پر مختلف نوعیت کے الزامات تھے،جن میں ایک یہ بھی تھا کہ پرویز الٰہی ان کے مشورے سے تحریک انصاف میں گئے تھے۔

قائم مقام چیئرمین نوید اصغر نے جنرل مزمل کے دست راست افسروں کو دوبارہ ان اہم پوسٹوں پر تعینات کر دیا جہاں سے جنرل سجاد غنی نے ان کو مختلف سنگین الزامات کے باعث ہٹایا تھا اس کے ساتھ ہی جنرل مزمل کی ٹیم کے باقی لوگوں کو بھی ان کے سابقہ عہدوں پر بحال کر دیا گیا ہے۔ مختلف پراجیکٹ پر درجنوں کے حساب سے ایکسین اور ایس ای بھی تبدیل کر دئیے گئے، نوید اصغر خود گزشتہ تقریباً بارہ سال سے واپڈا میں تعینات ہیں،ان کو بطور ممبر فنانس مقرر ہوئے بھی تقریباً چھ سال ہو چکے ہیں، ان کو پہلی دفعہ ممبر فنانس لیفٹیننٹ جنرل مزمل نے ہی مقرر کیا تھا، حالانکہ اس وقت آڈیٹر جنرل اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی اور واضح کیا کہ وہ اس عہدے کے اہل نہیں ہیں،تاہم جنرل مزمل نے اس وقت وزیراعظم عمران خان کی براہ راست مداخلت سے انہیں ممبر فنانس تعینات کرا لیا تھا،کیونکہ جنرل مزمل ان کی بطور جی ایم فنانس خدمات سے بہت مطمئن تھے ا ور وہ کسی سینئر افسر کی بطور ممبر فنانس تعیناتی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے،بتایا جا رہا  ہے کہ جنرل مزمل کے واپڈا گروپ نے قائم مقام چیئرمین نوید اصغر کو یہ لالچ دے کر قابو کیا ہے کہ وہ انہیں اپنے ذرائع استعمال کر کے مستقل چیئرمین واپڈا مقرر کرا دیں گے۔یاد رہے وزارت آبی وسائل پہلے ہی چیئرمین واپڈا تعینات کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہار جاری کر چکی ہے اور موجودہ قائم مقام نے اہلیت نہ ہونے کے باوجود اپنی درخواست جمع کرا دی ہے،حالانکہ وہ اس کے اہل نہیں، چیئرمین واپڈا کے لئے کم از کم گریڈ 21 میں ہونا ضروری ہے اور وہ  ابھی گریڈ 20کے افسر ہیں اور انہوں نے گریڈ 21 میں ترقی کے لئے لازمی نیشنل مینجمنٹ کورس بھی نہیں کیا ہے۔

ملک کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ واپڈا اس وقت مستقل افسروں کی غیر موجودگی کے باعث شدید انتظامی بحران کا شکار ہے،اہم عہدے 9 ماہ سے خالی ہیں جبکہ بڑے ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہو چکے ہیں اور  یہ ادارہ صرف ”نگرانی‘‘کی بنیاد پر چلایا جا رہا ہے،جس کا مالیاتی حجم تقریباً 70 ارب ڈالر ہے،اس وقت اہم فیصلہ ساز افسروں کی غیر موجودگی کے باعث سنگین بیوروکریٹک رکاوٹوں کا شکار ہے،واپڈا کی گورننگ باڈی کے دو اہم عہدے گزشتہ نو ماہ سے خالی ہیں، جس کے باعث ادارے کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے،یہ انتظامی مفلوجی اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ واپڈا اس وقت ملک کی تاریخ کے تین بڑے بجلی منصوبوں دیامر بھاشا، داسو اور مہمند ڈیم پر کام کر رہا ہے،اس کے علاوہ واپڈا عملی طور پر انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے آپریشنل نظام کو بھی سنبھالتا ہے، جو وفاقی اکائیوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور زرعی نظام کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے،تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ خودارسا بھی اس وقت بورڈ کی تشکیل کے حوالے سے قانونی تنازعات کا شکار ہے، جہاں سندھ سے مستقل رکن کی تقرری تنازع کا مرکز بنی ہوئی ہے،واپڈا ایکٹ کے تحت گورننگ باڈی میں تین مستقل ارکان پانی، بجلی اور مالیات اور ایک مستقل چیئرمین شامل ہوتا ہے،جو ہر سال سینکڑوں ارب روپے کے فنڈز کی نگرانی کرتا ہے۔

فی الحال یہ ادارہ قواعد کے برعکس پانی اور بجلی کے مستقل ارکان کے بغیر کام کر رہا ہے اور ان عہدوں کی ذمہ داریاں دو سینئر افسروں سید علی اختر شاہ (پانی) اور محمد عرفان (بجلی) کو ”نگرانی“ کے طور پر سونپی گئی  ہیں،سید علی اختر شاہ اس سے قبل جنرل منیجر واٹر (جنوب) رہ چکے ہیں،جبکہ محمد عرفان نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی کے چیف ایگزیکٹو افسر بھی ہیں، ”نگرانی“ کے عہدے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ افسر، بالکل عبوری حکومت کی طرز پر کسی قسم کے مالی یا انتظامی فیصلے نہیں کر سکتے،جون میں جب سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) سجاد غنی نے استعفیٰ دیا تو واحد مستقل رکن نوید اصغر چوہدری کو اضافی طور پر چیئرمین کی ذمہ داری بھی دے دی گئی،نوید اصغر چوہدری بنیادی طور پر مالیات کے رکن ہیں اور اس عہدے پر مستقل تقرری رکھتے ہیں،اس کا مطلب یہ ہوا کہ چار رکنی بورڈ اس وقت ایک مستقل رکن اور دو ”اضافی چارج“رکھنے والے افسروں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

واپڈا اپنے کورم کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے جو کسی بھی فیصلے کے لئے قانونی طور پر ضروری ہے، قانون کے مطابق کورم مکمل ہونے کے لئے چیئرمین اور کم از کم ایک مستقل رکن کی موجودگی لازمی ہے، لیکن ان دونوں عہدوں پر اس وقت ایک ہی شخص فائز ہے،ایسے  حالات میں بورڈ کا کوئی بھی فیصلہ آڈٹ اعتراضات یا قانونی چیلنجز کا سامنا کر سکتا ہے۔واپڈا جس کا کام بجلی کے منصوبے بنانا،پانی تقسیم کی نگرانی کرنا ہے اس کا سربراہ ایک ماہر مالیات ہے،وہ کیا پانی و بجلی کے منصوبوں بارے سوچے گا اور کیسے فیصلے کرے گا؟ستم ظریفی یہ کہ ہر محکمے،ادارے کا یہی حال ہے،چہیتے،سفارشی تعینات اور اہل،باصلاحیت،تجربہ کار افسر کھڈے لائین،ملکی تنزلی کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے اسی لئے واپڈا نہ تو اپنے پانی کی حفاظت کر پایا نہ صارفین کو بلا تعطل اور سستی بجلی فراہم کر سکا۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں