ملک میں الیکشن کا دور دورہ ہے ، الیکشن ہو گا یا سلیکشن یہ تو وقت ہی بتائے گا کیونکہ ہماری انتخابی تاریخ الیکشن کے نام پر سلیکشن سے بھری ہوئی ہے، ہر دفعہ ووٹ ڈالنے والے سے لے کر ووٹ لینے والے تک سب اس اضطراب میں ہوتے ہیں کہ آیا میں نے جس کو ووٹ دیا ہے اسی کو ہی ملے گا یا۔۔۔! اسی طرح ووٹ لینے والا بھی اس سوچ میں مبتلا ہوتا ہے کہ پتا نہیں میرے اپنے ووٹ بھی میری گنتی میں آئیں گے کہ نہیں، کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اصل فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور انتخابی عمل صرف ایک ڈرامہ ہوتا ہے، یوں الیکشن کے دن سے لے کر اگلے الیکشن کے دن تک ووٹر کی کسی بھی معاملے میں کوئی شراکت نہیں ہوتی، یوں وہ گراؤنڈ میں بیٹھے ایک تماشائی کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے جسے صرف اگلے پانچ دن میچ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر وہ ووٹر اس عرصے کے دوران اپنے کسی حق کے لئے آواز بلند کرے تو اس پر جمہوریت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگتا ہے یا اسے خلائی مخلوق کا آلہ کار بننے کا طعنہ ملتا ہے اور یوں ہماری جمہوریت کی تکمیل ہوتی ہے جس میں جمہور کا پانچ سال تک کوئی رول نہیں ہوتا، الیکشن کے زیادہ تر معاملات اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے باقی رہی سہی کسر دھن، دھونس اور دھاندلی فیکٹر نکال دیتا ہے۔
گزشتہ برس فرانس میں صدارتی الیکشن ہوا جس میں ایک نوجوان ٹیکنوکریٹ ایمینول میکون تقریباً پیسٹھ فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوا مگر حکومت کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اس کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے اور ہڑتالیں شروع ہو گئیں یہاں تک کہ فرانس کی ریلوے پچھلے وہ ماہ سے ہڑتال پر ہے ، صدر کی غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف قانون سازی بھی اس کے خلاف مظاہروں کا سبب بنی حتیٰ کہ اس کی اپنی پارٹی کے ایک سینئیر ممبر پارلیمنٹ نے نہ صرف اس قانون کے خلاف ووٹ دیا بلکہ پارٹی کی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان بھی کر دیا مگر آج کے دن تک ایمینول میکرون یا اس کی جماعت نے “ ووٹ کو عزت دو” ، “ خلائی مخلوق” یا “ جمہوریت کے خلاف سازش” کا نعرہ نہیں لگایا بلکہ مذکرات سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مردوں کو باوقار بنانے والا وہ پاکستانی انجینئر جس نے ڈریسنگ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا
ہمارے ملک میں جیسے جمہوریت کا نام صرف الیکشن رکھ دیا گیا ہے بالکل اسی طرح سیاسی شعور کو بھی صرف ووٹ کا نام دے دیا گیا ہے حالانکہ سیاسی شعور الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے بعد بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا الیکشن والے دن، ووٹر کے لئے امیدوار کے لئیے صرف اتنا ہی جاننا ہر گز کافی نہیں کہ وہ کون سی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے بلکہ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وہ جس جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہا ہے اس جماعت میں ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی استعداد ہے، اس جماعت کی خارجہ پالیسی کیا ہو گی ، وہ جماعت ملکی معیشت کو کیسے بہتر کر سکتی ہے، ملک کو درپیش دیگر چیلنجز کے حل کے لئے کوئی جامع حکمت عملی بھی رکھتی ہے یا نہیں، یہ سارے امور ووٹ دیتے وقت ووٹر کے مد نظر ہونے چاہئیں۔
ہمارے ملک میں موجودہ انتخابی نظام جو صرف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے بنا ہوا ہے اس میں ووٹ کے ساتھ ساتھ ووٹر کے سیاسی شعور کو بھی خرید لیا جاتا ہے، غربت ، برادری، لالچ اور خوف یہ چاروں عناصر جس معاشرے میں تقویت اختیار کر جائیں وہاں کچھ بھی ہو مگر جمہوریت نہیں ہو سکتی اور انہیں عناصر کو ہتھیار بنا کر عوام کو سیاسی بانجھ بنا دیا جاتا ہے، غریبوں کی نمائندگی کا نعرہ سرمایہ دار لگا رہا ہوتا ہے اور ادھر جاگیردار کسانوں کی نمائندگی کا ڈھونگ رچاتا ہے، مگر الیکشن کے بعد نہ سرمایہ دار کو غریب کے مسائل کی پرواہ ہوتی ہے نہ جاگیردار کسانوں کو گھاس ڈالتے ہیں بلکہ “جمہوریت چلتی رہے “ کے منشور پر حکومت کو پیارے ہو جاتے ہیں اور کئی کئی ماہ اپنے حلقے کا وزٹ کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
اگر یونہی ہماری جمہوریت پروان چھڑھتی رہی اور جمہور پہلے کی طرح پستے رہے تو آہستہ آہستہ جمہور کا اس نام نہاد جمہوریت سے اعتبار بالکل اٹھ جائے گا جو کہ پہلے بھی اتنا زیادہ نہیں، لہٰذا اگلے الیکشن میں عوام کی صرف ووٹ کی حد تک شمولیت کی بجائے نظام وہ بڑی تبدیلیاں لانی ہوں گیں جن سے عوام بھی پورے پانچ سال اس نظام کی شراکت دار ٹھہرے اور الیکشن سے پہلے اور بعد میں حکومت کا مواخذہ کرنے کا مکمل اختیار رکھتی ہو۔
۔۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔