مردوں کو باوقار بنانے والا وہ پاکستانی انجینئر جس نے ڈریسنگ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا

مردوں کو باوقار بنانے والا وہ پاکستانی انجینئر جس نے ڈریسنگ کی دنیا میں ...
مردوں کو باوقار بنانے والا وہ پاکستانی انجینئر جس نے ڈریسنگ کی دنیا میں تہلکہ مچادیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خوش لباسی بھی ایک آرٹ ہے ۔ایسا نہیں کہ امیر ترین اور انتہائی پڑھا لکھا انسان جسے معاشرے میں مقبولیت اور احترام بھی حاصل ہو مگر اسکی دلفریب شخصیت میں اسکی ڈریسنگ کا بھی ہاتھ ہو ۔ایسے لوگ ڈریسنگ میں کورے بھی ہوسکتے ہیں ۔اسقدر پاپولر ہونے کے باوجود لوگ ان کے لباس اور شخصی تاثر پر نیگیٹو باتیں بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی بالکل عام لوگوں کی طرح اناڑی واقع ہوتے ہیں جنہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اپنی رنگت،جسامت اورپیشے کے اعتبار سے انہیں کیسا لباس زیب تن کرنا چاہئے ۔
جی ہاں ....ڈریسنگ کا یہ نظریہ بالکل آرٹ ہے اور جن کے اندر جمالیاتی ذوق پایا جاتا ہے وہی اپنی  اپنے لباس سے پرسنیلٹی کو زیادہ دلکش اورپر اثر بنالیتے ہیں ۔کبھی غور کیجئے ،آپ کو خود  بھی یہ تجربہ ہوگا کہ ایک دن دوست احباب اور بیگم بھی کہتی ہیں کہ یار آج آپ بہت فریش لگ رہے ہیں،سمارٹ دکھائی دے رہے ہیں اور اگلے دن یہی لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں ”ارے آپ کو کیا ہوگیا ہے۔کل تک تو آپ بالکل ٹھیک تھے ، کیا طبعیت خراب ہوگئی ہے آپ کی“آپ کو واقعی کوئی میڈیکلی مسئلہ نہیں ہوا ہوتا ۔آپ کا اندر بھی مطمئن ہوتا اور خود کو بڑا ریلکس محسوس کررہے ہوتے ہیں لیکن جونہی دوست احباب توجہ دلاتے ہیں آپ کی طبیعت کو گرانی بھی محسوس ہونے لگتی ہے اور حیرانی بھی۔دراصل دوسروں کے رویہ کی تبدیلی آپ کی ڈریسنگ کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے ۔ڈریسنگ شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے ۔جس دن آپ نے اپنی جسمانی رنگت قدو قامت کے مطابق ملبوسات کا رنگ اور پرفیکٹ فٹنگ والا سوٹ وغیرہ پہنا ہوتا ہے اس دن آپ زیادہ بھلے اور کِھلے کِھلے لگتے ہیں.... مگر اگلے روز آپ کی شخصت اس لئے دب جاتی ہے کیونکہ لباس کے انتخاب نے آپ کی شخصیت کا تاثر مجروح کردیا ہوتا ہے۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ شخصیت کو نکھارنے میں ڈریسنگ کا انتخاب بنیادی اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ یہ کہ آپ کے لباس یعنی شلوار قمیض اور پینٹ شرٹ کوٹ وغیرہ کی سلائی کا معیار کیسا ہے،جس سے لباس مکمل فٹنگ کے ساتھ آپ کی باڈی پر بیٹھ جاتا ہے ۔عام طور پراچھے سے اچھا برانڈ کا سوٹ بھی پہننے پر ڈھیلا یا تنگ ہوتا ہے۔اسکی سٹچنگ میں مکمل نفاست نہیں ہوتی،کالر سے شولڈر اور کفنگ تک وغیرہ ایسی باریک باریک مگر اہم ترین چیزوں میں برانڈز والوں نے دونمبری دکھائی ہوتی ہے ۔آپ برانڈز استعمال تو کرلیتے ہیں اور یہی اطمینان کافی سمجھ لیتے ہیں کہ مہنگا اور اچھا لباس پہن کر آپ ہیرو لگ رہے ہیں لیکن ایک باذوق اور حس جمالیات رکھنے والے کی نظر میں آپ کا انتخاب انتہائی غلط بھی ہوسکتا ہے ۔اس سے آپ کی شخصیت کا تاثر بھی خراب ہوتا ہے اور پیسہ بھی ضائع ہوتا ہے۔یہاں آپ کو وہ بات بھی بتادیں جو آپ بالکل نہیں جانتے ہوں گے کہ سٹچنگ کا معیار دراصل اسکی سلائی میں ہے ۔بہترین سٹچنگ میں ایک انچ میں بائیس سے تئیس ٹانکے ہونے چاہئیں مگر پاکستان میں سب سے بہترین برانڈ بھی اٹھارہ ٹانکے استعمال کرتا ہے ،عام درزی یا سٹچر تو بارہ تیرہ ٹانکوں تک محدود ہوتا ہے ۔
ڈریسنگ کرتے ہوئے جب کوئی مرد ایسی باریکیو ں میں پڑ جائے تو لازماً اسے طعنہ دیا جائے گا کہ کیا تم عورتوں کی طرح نخرے کرنے لگے ہو ، لیکن واقعی جب غور کریں توآپ کی اپنی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ آپ جو لباس بھی زیب تن کریں وہ آپ کا تاثر بھرپور طریقہ سے قائم کردے ۔۔۔مردوں میں باذوق خوش لباسی اور درست لباس کا انتخاب کیا کچھ کرڈالتا ہے ،اس کا اندازہ ہمیں حامد سعید صاحب کے ساتھ ملاقات کے بعد ہوا ۔وہ پاکستان کے پہلے مرد امیج اینڈ وارڈروب کنسلٹنٹ ہیں ۔جنہوں نے مردوں کو زیادہ باوقار اور وجیہہ بنانے کا عزم کررکھاہے ۔جینٹس ڈریسنگ ان کا جنون ہے۔امریکہ سے ڈریسنگ کی تعلیم حاصل کرکے اپنے ملک ایک جذبہ کے ساتھ واپس آئے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حامد سعید نے یو ای ٹی لاہور سے کیمیکل انجینرنگ کی ڈگری حاصل کی مگراندر سے وہ کوئی ایسا کام کرنے کے جنون میں گرفتار تھے جو نہ صرف انہیں مطمئن کئے رکھتا بلکہ وہ اپنے کام کی بدولت پہچانے بھی جاتے ۔لاہور کے ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والے حامد سعید ستر کی دہائی کے آخر میں نیویارک چلے گئے اور وہاں بطور انجینئر جاب کرنے کی بجائے پہلے ایم بی اے کیا پھر ڈریس ڈیزائنگ کی دوسالہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہی بزنس شروع کردیا ۔ان کا یہ کاروبارا نتہائی دلچسپ تجربات کا حامل رہا ۔خود امریکہ میں بھی ڈریسنگ کے معاملے میں امیج اور وارڈروب کی اہمیت کا زیادہ رواج نہیں تھا ۔مگر یہ پاکستانی سپوت حامد سعید تھے جنہوں نے ڈریسنگ میں انجینئرنگ کو انوالو کیا اور قدو قامت ورنگت کے مطابق فیبرک کے کلرزاور فٹنگ کا رواج پیدا کیا ۔حامد سعید ایک باذوق اور انتہائی ولولہ انگیز شخصیت ہیں جو مردوں میں انکی شخصیت اور پیشے کے اعتبار سے انکی ڈریسنگ کو رواج دینا چاہتے ہیں۔ان کا یقین ہے کہ جو لوگ اپنی پرفیکٹ ڈریسنگ کا خیال رکھتے ہیں وہ اپنے ماحول پر گہرااثر چھوڑتے ہیں اوراس سے انکے اردگرد نفاست اور اچھائی جنم لینے لگتی ہے۔لوگوں میں تحریک پیدا ہوتی ۔
حامد سعید سے ملاقات ہوئی تو بتانے لگے ” اگر کسی ا دارے کا سربراہ یا سی ای او لیول کا بندہ پرفیکٹ ڈریسنگ نہیں کرے گا تو اپنے منصب کے مطابق اسکی شخصیت کھل کر سامنے نہیں آئے گی ،بینکر ،ٹیچر،وکیل یعنی ہرپیشے کے بندے کو اپنی پیشہ وارانہ حیثیت کے مطابق لباس کے رنگ اورپرفیکٹ فٹنگ استعمال کرنی چاہئے۔ہمارے ہاں لوگ ڈریسنگ کے معاملے میں لاپروائی کرتے ہیں ۔پیسہ خرچ کرکے بھی اگر وہ شخصیت اور منصب کے مطابق لباس نہ پہنیں گے تو خود انکی اپنی شخصیت دب جائے گی ۔میں یونیورسٹیز میں جاتا ہوں اور جب سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کو لیکچر دیتا ہوںیاپھر کوئی کمپنی مجھے بلاتی ہے یا کوئی اور ادارہ تو وہاں میں جب یہ بتاتا ہوں کہ ڈریسنگ دراصل ہوتی کیا ہے تو وہ حیران ہوکر کہتے ہیں کہ اچھا یہ بھی کوئی کام ہے ۔کپڑوں سے تن تو ڈھانپ لیا جاتا ہے ۔پینٹ کوٹ ٹائی شرٹ جوتے وغیرہ مہنگے سے مہنگے بھی خرید کر پہن لئے جاتے ہیں مگر یہ آپ کی شخصیت کے مطابق بالکل نہیں جچتے توپھر آپ کو سوچنا چاہئے ۔آپ بہت اہم یا بڑے افسر ہیں لیکن اپنے عملہ سے دب کر رہتے ہیں تو اس میں آپ کی ڈریسنگ کا بہت زیادہ قصورہوتا ہے۔ اچھے لباس میں انسان کا عملی اور روحانی اطمینان چھپا ہوتا ہے ۔میں لوگوں کو تحریک دیتا ہوں اور انہیں سمجھاتا ہوں کہ آپ لمبے ہیں،دبلے ہیں یا موٹے اور کوتاہ ہیں ، درمیانے ہیں ،رنگت سانولی ہے یا سفید یا سرخ،چہرہ کی لمبائی کیسی ہے،گردن چھوٹی ہے یا موٹی۔بازو دبلے ہیں یا موٹے۔پیٹ کا مزاج کیسا ہے۔بڑی توند ہے یا درمیانی........ پھر سب سے بڑی بات کہ آپ کرتے کیا ہیں۔آپ ٹیچر ہیں تو کس لیول کے ،پروفیسر،وائس چانسلر،پرنسپل،سبجیکٹ سپیشلسٹ ....میں انہیں ان ساری باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے سوٹنگ سے جوتے تک کا انتخاب کرنے کا طریقہ بتاتا اور گائیڈ کرتا ہوں ۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ بیوروکریٹ سے لیکر بزنس مین اور سکول ٹیچر تک ،میڈیا پرسن سے لیکر وکیل تک ۔۔۔اکثریت ایسی ڈریسنگ کرتی ہے جس سے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اس بندے کی قابلیت کیا ہے ؟ وہ سی ای او ہے یا مارکیٹنگ کا ہیڈ یا اینکر پرسن ہے ۔وہ جب کسی کو ملنے جائے گا تو عام طور پر اسکا لباس اسکی شخصیت کے مطابق نہیں ہوگا تو اس سے زیادہ اسکا وہ ماتحت جس کا لباس انتہائی مناسب ہوگا ،وہ زیادہ پرکشش لگے گا اورلوگوں کی نظریں سب سے پہلے اسی کی جانب اٹھیں گی۔مارکیٹنگ اور مینجمنٹ کی دنیا میں پرفیکٹ ڈریسنگ کا بہت دخل ہے ۔ رنگوں کی اپنی قوت اور تاثیر ہوتی ہے ۔اس لئے مارکیٹنگ والوں کو سی ای او لیول کے لوگوں کو ایسا ڈریس پہننا چاہئے جو یہ کہے بغیر بتا دے کہ یہ مارکیٹنگ کا بندہ ہے اور یہ سی ای او ہے۔۔۔۔تاہم یہ بات بھی کلئیر کردوں  کہ  بہت سے مرد  جمالیاتی ذوق کے مالک ہوتے ہیں اور ان کی ڈریسنگ کا انتخاب بہترین ہوتا ہے  “
حامد سعید کی انجنئرنگ کی تعلیم نے انہیں ”شخصیت ساز“ ادارہ بنا دیا ہے ۔انکی باتیں بندے کو حیرت کے ٹانکے لگادیتی ہیں۔وہ عام برانڈز اور سٹچرزسے زیادہ اپ ڈیٹ اور سائنٹفک ہیں۔امریکہ سے ایسے اوزار لیکر آئے ہیں جس سے کسی بھی مرد کا ماپ لیتے ہوئے اسکی گردن کندھو ں سے پاوں تک پیمائش کرتے اور پھر اسکا ویٹ مشین پر وزن بھی کرتے ہیں۔اسکا پورا نفسیاتی جائزہ لیتے ہیں تو انکے ذہن میں بندے کی شخصیت کا اصل امیج پیدا ہوجاتا ہے ” میں کسی کو اسکی مرضی کے مطابق ڈریس بنا کر نہیں دیتا ،اگر کوئی میرے پاس آئے تو اسکو میری بات ماننا پڑتی ہے۔اس پر کونسا کلر سوٹ کرے گا،جوتا اسکو کیسا پہننا ہوگا ،اسکا فیصلہ میں کروں گا اور یہی میرا پیشہ ہے ۔“ ہے ناں یہ عجیب بات ۔۔پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا مرد ہوگا جو اس سے پہلے کسی سٹچر یا کسی برانڈ والے کی مرضی پر انحصار کرتے ہوئے اسکے مطابق ڈریس کا انتخاب کرے۔یہ نیا خیال حامد سعید نے امریکہ کے بعد پاکستان میں متعارف کرایا ہے۔وہ کہتے ہیں ” میں چیف جسٹس پاکستان کو دیکھتا ہوں تو مجھے انکی ٹائی کا انتخاب حیران کردیتا ہے ،انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کے سوٹ پر اس وقت کس رنگ کی ٹائی ہونی چاہئے۔وہ پھولدار ٹائیاں لگائیں گے تو یہ ان کی شخصیت کو دبا دیں گی۔ان کو پلین اور کراس دھاری والی ٹائی لگانی چاہئے ۔اینکر پرسن جاوید چودھری اور شاہزیب خانزادہ اپنے ڈریس پر بڑی توجہ دیتے ہیں لیکن وہ بھی رنگوں کے انتخاب میں مار کھاجاتے ہیں۔شاہزیب خانزادہ کو چمکدار ٹائی نہیں لگانی چاہئے۔پنجاب پولیس کی وردی دیکھ کر میری آنکھیں حیرت سے پھٹ جاتی ہیں کہ انہیں یہ کلر کس نے پہنوادیا جو کسی بھی ملک میں پسندیدہ نہیں۔مغرب میں پولیس کی بلیو(ڈارک ،لائٹ ) یونیفارم ہے ۔بلیک اور بلیو دونوں طاقتور ،بااثر رنگ ہیں جس سے پولیس کا غلبہ فطری طور پر پیدا ہوجاتا ہے ۔مگر ہماری پولیس کو موجودہ مہندی رنگ نے کمزور کردیا ہے ۔بہت سے کاروباری اور ہیلتھ کے اداروں کی میں یونیفارم تجویز کرچکا ہوں اور الحمد اللہ ان اداروں کے ماٹو اور انکے ملازمین کی بہترین کارکردگی میں انکے یونیفارم کا بڑاہاتھ ہوتا ہے ۔اس بات کو مغر ب میں بڑی اہمیت ہے جبکہ ہمارے ہاں زیادہ تر اداروں میں مالکان کی مرضی کا رنگ اور یونیفارم چلتا ہے ۔میری نظر میں اداروں کی ناقص کارکردگی اور عملے کے ڈپریشن اور برے برتاو کے پیچھے انکی یونیفارم کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔رنگ اور لباس مزاج پر گہرا اثرچھوڑتا ہے۔میری خواہش ہے کہ میں پاکستانی مردوں کو خوش لباسی کا سلیقہ سکھا کر انہیں ایک بہترین اور نفیس قوم بنا کر ان کا اقوام عالم میں سر بلند کرسکوں کیونکہ میری نظر میں پاکستانی مرد دنیا کے بہترین مرد ہیں مگر یہ اپنی ناقص ڈریسنگ کی وجہ سے نفسیاتی طور مغلوب ہوجاتے اور پیچھے رہ جاتے ہیں ۔“

۔۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔