صہیبؓ مکے سے ہجرت کرنے والوں میں آخری مرد تھے جو علیؓ کے ساتھ آئے۔ سخت گرمیوں کے طویل سفر کی صعوبتیں سہتے سہتے جب وہ قبا پہنچے تو اُن کی ایک آنکھ آشوب کر آئی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے کلثوم بن ہدمؓ کے مکان پر پہنچے تو کھجوروں کا نقل ہو رہا تھا۔ صہیبؓ کئی دن کے فاقے سے تھے، بھوک کی شدت سے بیتاب تو تھے ہی، جلدی جلدی کھجوریں کھانی شروع کر دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُن سے بہت التفات فرماتے تھے۔ انہوں نے دیکھا تو ازرہِ تلطف فرمایا:
’’صہیب، تمہاری آنکھ آئی ہوئی ہے اور تم کھجوروں پر کھجوریں کھائے چلے جا رہے ہو۔‘‘
صہیبؓ نے جن کی حس مزاح بہت تیز تھی ، برملا جواب دیا:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اُس آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں جو ٹھیک ہے۔‘‘
اس حاضر جوابی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ ہنس پڑے۔
اُن کی باتیں چھڑ گئی ہیں تو اس وقت وہ بہت یاد آ رہے ہیں کیا باغ و بہار شخصیت پائی ہے۔ خدا انہیں ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اُن سے آخری ملاقات مدینے میں ہوئی تھی، جب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر حاضری دینے گیا تھا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ابو رافعؓ، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، عباسؓ کے غلام تھے، انہوں نے رسالت مآبؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر دیا۔ آزادی کے بعد بھی انہوں نے میری طرح اپنی زندگی کا بہترین مصرف یہی سمجھا کہ خود کو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے اتنا پیار کیا، اتنی فضیلت عطا کی کہ انہیں اپنے خاندان کا فر د بنا لیا۔ آج بھی جس کا جی چاہے مدینے جا کر دیکھ لے کہ ایک سابق غلام کا کیا احترام ہے۔ کیسے لوگ ان کی راہوں میں آنکھیں بچھا رہے ہیں۔
میں خود آپ کے سامنے ہوں۔ ہجرت مدینہ کے کچھ عرصہ بعد میں نے اپنا گھر بسانا چاہا مگر حالت میری یہ تھی کہ شادی کی مطلق استطاعت نہیں تھی۔ نہ زمین، نہ مکان، نہ مال و دولت، نہ آمدنی کا کوئی مستقل وسیلہ۔ میرا حسنِ ظاہری تو آپ کے سامنے ہے۔ سیاہ فام رنگت، موٹے موٹے ہونٹ، لاغر بدن، عمر بھی چالیس سال سے بڑھ چکی تھی لیکن جوں ہی میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو مجھ حبشی زادے کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ تمام مہاجرین اور انصار نے جو شرفائے عرب کی جان تھے، اپنے دیدہ و دل میرے لئے فرِش راہ کر دئیے، یہاں تک کہ میرے لئے رشتے کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا۔ رنگ و نسل اور حسب نسب کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے عرب معاشرے میں یہ ایک عظیم انقلاب تھا جس کا چند برس پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ہمیں اُن کے بغیر مدینے کے گلی کوچے سونے لگنے لگے تو میں نے اور عبداللہ بن مسعودؓ نے کہیں اور جا بسنے کی باتیں شروع کر دیں۔ ابن مسعودؓ بھی گذشتہ دس سال سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے اور مجھے اپنے مواخاتی بھائی ابو رویحہؓ کی طرح عزیز تھے۔ وہ تو کہیں نہیں گئے، وہیں مدینے ہی میں عزلت نشیں ہو گئے، مگر میں نے سوچا کہ اسلام میں جہاد کا بڑا ثواب ہے کیوں نہ باقی زندگی اسی کارِخیر میں گزار دی جائے، چنانچہ میں خلیفہء وقت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُن سے جہاد پر جانے کی رخصت طلب کی۔ میرے اور ابوبکرؓ کے تعلق کا تو آپ کو علم ہے، میں تفصیل سے بتا چکا ہوں۔ اس تعلق کے تناظر میں میری بات پر ذرا غور کیجئے گا اور یہ بھی یاد رکھئے گا کہ وہ خلیفہء وقت تھے۔ تمام اسلامیانِ عالم کے سربراہ! انہوں نے جو مجھ پر ہزار حق جتا سکتے تھے، محض اپنی ضعیفی کا واسطہ دے کر مجھے روکا۔ کہنے لگے بلال، مجھے اس عمر میں تمہاری رفاقت کی ضرورت ہے۔ نہ اپنے جلیل القدر منصب کا استعمال فرمایا، نہ اپنا کوئی ذاتی احسان جتایا۔ یہ تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اثر کہ سلطنت اسلامیہ کا سب سے مقتدر شخص، ایک ادنیٰ غلام کو اپنی رائے رکھنے کا مکمل حق دے رہا تھا۔ اپنی بات منوانے کے لئے اسے برابر کا درجہ دیتے ہوئے منت سماجت کا لہجہ اختیار کر رہا تھا۔
عبداللہ بن مسعودؓ، میں نے سنا ہے، ابھی چند روز ہوئے کوفے کے قاضی مقرر ہو گئے ہیں۔ یہ اُن کے تجرِ علمی کا اعتراف ہے اور اس بات کا بھی کہ اسلام میں فضیلت کا معیار تقویٰ اور محض تقویٰ ہے۔ نہ نسلی برتری، نہ خاندانی شرف۔
شام کے معرکوں میں ایک موقع پر عمرِ فاروقؓ اپنے سپہ سالاروں کے ساتھ بیٹھے تھے اور چند اہم فوجی معاملات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ میں بھی موجود تھا۔ میرے ذہن پر کچھ بوجھ تھا۔ میں نے انہیں پکار کر کہا:
’’یا امیرالمومنین! یہ لوگ جو آپ کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، واللہ یہ لوگ عیش پرستی میں پڑ گئے ہیں۔ یہ پرندوں کا گوشت کھاتے ہیں جبکہ عام مسلمانوں کو دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں‘‘
عمرؓ نے میری آواز سنی تو مجھ سے مخاطب ہوئے۔ قیس بن ابی عازمؓ میرے سامنے کھڑے تھے۔ خلیفۃ المومنین کو مجھ سے مخاطب ہوتے دیکھا تو سامنے سے ہٹ گئے۔ امیر المومنین فرمانے لگے:
’’یا بلال، بیشک آپ سچ کہتے ہیں۔ میں اُس وقت تک یہاں سے نہیں اُٹھوں گا جب تک ہر مسلمان کے لئے مٹھی بھر جو، سر کہ اور زیتون کے تیل کا بندوبست نہیں ہو جاتا‘‘
اُن کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی اطراف میں بیٹھے ہوئے اُمرا نے اس کفالت کو قبول کر لیا۔ کس نے دی تھی ایک غلام زادے کو یہ جرأت کہ وہ بھرے دربار میں یوں امیر المومنین سے مخاطب ہو۔ کس نے دیا تھا حاکمِ وقت کو یہ حوصلہ کہ وہ اُس کا اعتراض اس خندہ پیشانی سے سُنے۔
یہ باتیں جو میں کر رہا ہوں کوئی قصہ پارینہ نہیں، دورِ حاضر کی جیتی جاگتی کہانی ہے۔ عصرِ رواں کی ایک زندہ روایت ہے۔ میں دمشق کے نکتہ دانوں ہی کو نہیں، کل اہلِ نظر کو غلامانِ اسلام کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ وہ خود دیکھیں کہ اسلامی معاشرے نے سابق غلاموں کو کس طرح پروان چڑھایا، اُن کی کشتِ فکر کی کس طرح آبیاری کی، ان کی شخصیتوں کو کیسی جلا بخشی، کس طرح ان کی ذہنی نشوونما کی اور کس کس انداز سے اپنی محبت، اپنا خلوص اور اپنا اعتماد اُن پر نچھاور کیا۔ ہر شخص خود اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ سابقہ غلاموں کی زندگی میں کوئی ایک لمحہ، کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی ایسا دکھائی دیتا ہے جہاں اُن سے کسی قسم کا کوئی تعصب برتا گیا ہو، کوئی خصوصی برتاؤ، کوئی سلوک جو مساواتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں کے منافی محسوس ہو! جس نے اپنے آپ کو جس شرف کا اہل ثابت کر دیا، وہ اُسے عطا ہو گیا اور بالکل ایسے جیسے کسی برابر والے کو اُس کا حق دیا جاتا ہے۔ ایسے نہیں کہ اُس میں کسی لطفِ خاص یا بخششِ بے جاکا شائبہ ہو، جس سے اُن کی توقیر میں اُن کی تذلیل کا پہلو نکلتا ہو۔ یہ بھی نہیں ہوا کہ اُن کا جائز مقام دینے میں کوئی حیل و حجت ہوئی ہو یا کسی قسم کا کوئی ذہنی تحفظ برتا گیا ہو۔ (جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں