حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر72
غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر تبوک تک مجھے اِن کی ہمرکابی کا شرف حاصل رہا۔ عیدین اور استسقا کے موقعوں پر میں نیزہ لے کر اُن کے آگے آگے چلتا۔ میں اُن کے گھر کا مدار المہام تھا۔ سودا سلف لانا، اُن کے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنا میری ذمے داری تھی۔ کئی بار گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا اور نہ کوئی ایسی چیز جس کو بیچ کر یا گروی رکھ کر خوردونوش کا سامان لایا جا سکے۔ ایسے موقعوں پر وہ فاقے سے رہتے اور ان کے ساتھ میں بھی فاقہ کرتا۔
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مدینے میں وفود کی آمد کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔ آئے دن کسی نہ کسی وفد کی آمد ہوتی۔ بعض وفود بہت اہم ہوتے تھے۔ ان سب کی خاطر مدارات اور مہمان داری میں مجھے عام حالات سے زیادہ تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ ایک مرتبہ آج سے کوئی دس سال پہلے نجران سے ایک وفد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند اہم امور پر بات چیت کے لئے آیا تو آپ نے مجھے اُن کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔ حکم مل چکا تھا، تعمیل لازم تھی۔ گھر میں رقم کا ہونا یا نہ ہونا سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کوئی قابل اعتنا مسئلہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی اُن چیزوں سے وہ کوئی سروکار رکھتے تھے جو روپے پیسے سے خریدی جاتی ہیں۔ یہ میرا کام تھا۔ اس وقت گھر کی مالی صورت یہ تھی کہ کوئی چیز ایسی موجود نہیں تھی جن سے مہمانوں کی تواضع ہو سکے اور نہ ہی کوئی رقم، کہ بازار سے کچھ لے آتا۔ گھر کا جو جو سامان گروی رکھا جا سکتا تھا پہلے ہی سے مدینے کے مشہور مشرک تاجر لبیہہ کے پاس رہن تھا۔ لبیہہ نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ بلال تمہیں جب قرض کی ضرورت ہو مجھ سے لے لیا کرو۔ چنانچہ میں اُسی کے پاس چیزیں رہن رکھ کر حسب ضرورت قرض لیتا رہتا تھا۔ اس وقت مشکل یہ آن پڑھی تھی کہ رہن رکھنے کو کچھ نہ تھا۔ خیر، میں ہمت کر کے اُس کے پاس گیا اور اُس سے اُدھار کی درخواست کی مگر اُس نے ضمانت کے بغیر قرض دینے سے صاف انکار کر دیا۔ منت سماجت کا بھی کوثی اثر نہ ہوا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ میرے اپنے پاس کیا تھا جو میں ضمانت کے طور پر پیش کرتا۔ میں نے اپنے آپ کو اُس کے پاس گروی رکھ دیا اور سودا سلف خرید لایا۔ شرط یہ طے ہوئی کہ اگر ایک ماہ کے اندر رقم واپس نہ ہوئی تو میری ذات پر اُس کا حق ہو گا۔
مہمانوں کی دعوت ہو گئی۔ میرے انتظامات کو سراہا گیا اور شکر ہے وقت ٹل گیا مگر ساتھ ہی مجھے اپنی فکر لگی ہوئی تھی۔ دن یونہی ایک ایک کر کے گزرتے گئے۔ کہیں سے قرض چکانے کا بندوبست ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ میں اندر ہی اندر سخت پریشان تھا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر نہیں کیا تھا۔ ایک دن میں عشاء کی اذان کے لئے وضو کر رہا تھا کہ لبیہہ اپنے چند دوستوں سمیت ادھر سے گزرا اور اُس نے نہایت درشت، حقارت آمیز لہجے میں مجھے پکارا:
’’ارے او حبشی!‘‘
میں نے اس بدکلامی کیو جہ دریافت کی تو کہنے لگا:
’’پتا ہے کتنے دن رہ گئے ہیں ایک مہینے میں، صرف چار راتیں باقی ہیں۔ چار راتیں! پھر میں تجھ سے وہ حاصل کروں گا جو میرا تیری طرف نکلتا ہے اور کسی خوش فہمی میں نہ رہنا۔ میں کوئی لحاظ مروت نہیں کروں گا۔ نہ تجھ سے نہ تیرے صاحب سے۔ میں نے تجھے قرض دیا ہی اس لئے تھا کہ تو چکا نہ سکے اور غلام بن جائے جیسا تو پہلے تھا۔ پھر میں تجھ سے اپنی بھیڑ بکریاں چرواؤں گا۔ یاد رکھنا بلال، مجھ سے کسی رو رعایت کی توقع نہ رکھنا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا مگر میں بہت زیادہ فکر مند ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ رہتے رہتے مجھے اس قسم کی بداخلاقی اور بدتمیزی کی باتیں سننے کی عادت نہیں رہی تھی۔ طبیعت پر بہت بوجھ محسوس ہونے لگا۔ وہاں سے اُٹھ کر میں نے اذان دی۔ دو نفل ادا کئے اور سوچنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کن الفاظ میں اپنی مصیبت کا حال سناؤں۔
عشاء کی نماز کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر جانے لگے تو میں نے اُن سے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ میں نے اُن سے یہ بھی درخواست کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو میں راتوں رات مدینے سے باہر چلا جاؤں اور صحرا میں روپوش ہو جاؤں۔ انہوں نے ہنستی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور کہا:
’’تم جاؤ اور سو جاؤ، کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
سونے کو تو میں سو گیا مگر نیند میں بھی پریشانی رہی۔ دوسری رات پھر میں نے ان سے وہی درخواست کی۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے وہی جواب دیا۔ تیسری رات بھی یہی ہوا۔ اب صرف ایک دن باقی تھا اور ایک رات۔ رقم کا حال مجھ سے زیادہ کون جانتا تھا۔ کہیں سے فوری کچھ آنے کی توقع نہیں تھی۔ دن تو جوں توں کام کاج میں گزر گیا مگر شام ہوتے ہوتے میری حالت خاصی دگرگوں ہو گئی۔ مغرب کے بعد دعا مانگی، عشاء کے بعد دعا مانگی اور پھر اپنی فکر میں ڈوب گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہر روز ایک ہی بات کئے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ عشاء کے بعد وہ کچھ دیر مسجد میں ٹھہرے اور جاتے جاتے جیسے انہوں نے میرے چہرے سے میرا سوال پڑھ لیا۔ کہنے لگے: ’’جاؤ بلال آرام کرو۔‘‘
اُن کے حکم کے مطابق میں آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا مگر نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ کیا واقعی آج کی رات میری آزادی کی آخری رات تھی۔ پھر میں نے اپنے آپ کو اپنی غلامی کے دور میں محسوس کیا۔ اب میرا آقا لبیہہ تھا۔ وہی ظلم، وہی تشدد، وہی میری کسمپرسی۔ پھر خیال آتا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہ منظور ہوتا تو مجھے آزادی عطا ہی کیوں کرتا۔ اسی ادھیڑ بن میں رات گزر گئی۔ علی الصبح بلکہ اس سے بھی پہلے ابھی رات کا آخری پہر ہی تھا کہ ایک آدمی نے مجھے آواز دے کر باہر بلایا۔ یہ آدمی حاکمِ فدک کی طرف سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحائف لے کر آیا تھا جو چار اونٹوں پر لدے ہوئے تھے۔ تحائف میں کپڑا اور اجناس کے علاوہ کچھ رقم بھی تھی۔ مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بے وقت ہی جگا کر انہیں اطلاع دے دی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
’’الحمدللہ، لبیہہ کی رقم ادا کر دو اور کچھ زیادہ بھی دے دینا کیونکہ اُس نے بہت انتظار کیا ہے۔‘‘
اونٹوں سے سامان اُتارتے اُتارتے اذان کا وقت ہو گیا۔ فجر کی نماز کے بعد میں بقیع کی سمت نکل گیا اور زور زور سے اعلان کیا کہ جس جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قرض وصول کرنا ہو وہ لے جائے۔ ایک ایک قرض خواہ کی ایک ایک پائی چکانے کے بعد میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ وہ مسجد میں محرابِ نبویؐ کے پاس ابوبکرؓ سے باتیں کر رہے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے تمام قرض چکا دئیے ہیں اور اب کسی کا کچھ واجب الادا نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلمنے اللہ اکبر کہا اور فرمانے لگے:
’’کچھ باقی بھی بچا ہے۔؟‘‘
میں نے کہا:
’’دو دینار‘‘
فرمایا:
’’انہیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔‘‘
یہ واقعہ میں نے ابھی چند روز قبل حلب میں عبداللہؓ الہورینی کو بھی سنایا تھا۔ وہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ’انفاق‘ کے کچھ واقعات پوچھنے آئے تھے۔
اپنی ناداری کے باوجود جہاں کہیں سے جو کچھ مجھے میسر آ جاتا اُس کا ایک حصہ میں ضرور محسنِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بچا کر رکھتا تھا۔ ایک دفعہ وہ انسؓ سے محو گفتگو تھے۔ اسلام کے اولین دنوں میں کفار کے مظالم کا ذکر ہو رہا تھا۔ فرمانے لگے:
’’ایک موقع پر تیس راتیں اور تیس دن مجھ پر ایسے گزرے ہیں کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کی کوئی چیز ایسی نہ تھی جسے کوئی جاندار کھا سکے، سوائے اُس کے جو بلال کہیں نہ کہیں سے لا کر رکھ ڈھک چھوڑتا تھا۔‘‘
ایک مرتبہ میں نے کچھ برنی کھجوریں اُن کی خدمت میں پیش کیں۔ یہ کھجوروں کی ایک نہایت خوش ذائقہ قسم ہے جو عام طور پر نہیں ملتی۔ انہوں نے دیکھا تو حیرت سے کہنے لگے:
’’بلال یہ کہاں سے ؟‘‘
میں نے عرض کیا:
’’میرے پاس دو صاعہ عام کھجوریں تھیں، اُن کے عوض کسی سے یہ ایک صاعہ کھجوریں لی ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے۔‘‘
سُن کر فرمانے لگے:
’’ارے بلال تم نے تو غضب کر دیا۔ یہ تو رِبا ہو گیا۔ تمہیں چاہئے تھا کہ پہلے تم اپنی کھجوروں کو بیچتے، پھر ان کی قیمت سے یہ خریدتے‘‘۔
کتنا سیدھا سچا طریقہ تھا اُن کا تعلیم دینے کا، بات سمجھانے کا۔ ایک ایک لفظ دل میں گھر کر جاتا تھا اور طبیعت پر کوئی بوجھ نہیں محسوس ہوتا تھا۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر73 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں