حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر73
ایسے ہی ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس میرے حجرے میں تشریف لائے تو دیکھا کہ میرے پاس کھجوروں کا ڈھیر رکھا ہے فرمانے لگے:
’’بلال یہ کیا؟‘‘
میں نے عرض کیا:
’’مہمان داری کے لئے جمع کی ہیں‘‘۔
کہنے لگے:
’’بلال تمہیں جہنم کی آگ سے ڈر نہیں لگتا۔ جاؤ انہیں اللہ کی راہ میں خیرات کرو اور یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ تمہارے پاس کوئی کمی ہو جائے گی۔‘‘
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے علاوہ غریب الدیار نو مسلموں کے کھانے پینے کا بندوبست بھی میرے ذمے تھا۔ ان لوگوں کے لئے مسجد نبویؐ کے ایک حصے میں ایک چبوترا بنا دیا گیا تھا۔ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا اور یہ دیگر اہلِ ایمان کے عطیات، خیرات اور صدقات پر گزر کرتے تھے۔ یہ لوگ اہل صفہ کہلاتے تھے اور اکثر اوقات فاقوں سے دوچار رہتے تھے۔ ایسے موقعوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اُن کے ساتھ فاقہ فرماتے تھے۔ دراصل اصحاب صفہ کی کفالت سارے مسلمانوں کے ذمے تھی مگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے اہلِ خاندان جیسا ہی سمجھتے تھے اور ہر ممکن طور پر اُن کی دیکھ بھال فرماتے تھے۔ اُن کو اپنے گھر سے کھانا کپڑا وغیرہ بھجواتے رہتے تھے۔ مال غنیمت میں بھی اُن کا باقاعدہ حصہ رکھتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے علاوہ فاطمہؓ کو بھی ان کی خبر گیری پر مامور کیا ہوا تھا۔ ہم ہر روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے مسائل اور مشکلات سے آگاہ کرتے اور حتی الوسع اُن کی خدمت انجام دیتے رہتے۔ فاطمہؓ کے عقد کے بعد اس ذمے داری میں میرے ساتھ اُم ایمنؓ اور اُم کلثومؓ پیش پیش تھیں۔ اُن کے علاوہ ام سلیمؓ اور ان کے بیٹے انسؓ، ابو طلحہؓ، ابن مسعودؓ، ابورافعؓ اور عثمان بن مظعونؓ کی بیوہ خولہؓ بھی اس کام میں ہاتھ بٹاتے رہتے تھے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل صفہ کا اتنا خیال تھا کہ ایک مرتبہ جب فاطمہؓ نے روز کی محنت مشقت سے تنگ آ کر اُن سے ایک غلام کا سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’یہ ممکن نہیں۔ میں آج کل اصحابِ صفہ کے کھانے پینے کے سلسلے میں فکر مند ہوں۔ میں کچھ کر سکتا تو پہلے اُن کی مدد کرتا۔ تم رات کو سوتے وقت، سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر کی تسبیح پڑھا کرو۔ پریشانی ختم ہو جائے گی۔‘‘
فاطمہؓ جو اہل صفہ کی فاقہ کشی اور مفلوک الحالی سے خود بھی واقف تھیں، خاموش ہو رہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا پانی بھرنا بھی میرا کام تھا کبھی کبھار کھانا پکانے میں بھی مدد دے دیا کرتا تھا۔ اور آٹا تو اکثر میں ہی گوندھا کرتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کبھی کبھی آٹا گوندھ دیا کرتے تھے۔ بلکہ وہ اکثر اُمہات المومنین کے ساتھ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔ مختصر یہ کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا کوئی چھوٹا بڑا کام ایسا نہیں تھا جس کے کرنے کی سعادت مستقلاً یا کسی نہ کسی وقت اس غلام کے حصے میں نہ آئی ہو۔ ان ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے میں مجھ سے بہت سی کوتاہیاں بھی ہوئی ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کرے!
میں بلال سیاہ فام، غلام ابن غلام، نبی عالی مقام صلی اللہ علیہ وسلم کا مدارالمہام، اُن کا بے دام غلام، ان کا معتمدِ خاص، داروغہ،مبطخ، باورچی، ہر کارہ، سقہ، چوب دار، چوکیدار، عصابردار، پیش کار، مہماندار، ذاتی خدمت گزار، معلن، خازن، ہر صبح ان کو نماز کے لئے بیدار کرنے والا اور اُن کا مؤذن خاص تھا۔ مؤذن کی حیثیت سے میں ہر وقت خانہ خدا میں رہتا تھا اور خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ہر وقت نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں۔ کیا وظیفہ تھا میرا، اللہ کا گھر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ۔
اشاعتِ اسلام
میں نے دمشق میں کچھ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ کیسی حماقت کی بات ہے! وہ لوگ یہ چھوٹا سا نکتہ نہیں سمجھتے نکتہ دین فصل کاٹنے کا نہیں، فصل بونے کا نام ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ فصل کاٹتا ہے۔ اُس سے ڈرنا چاہئے۔ ایسی غیر سنجیدہ، سطحی باتیں ذہنی عیاشی کے دائرے میں تو آ جاتی ہیں لیکن منصفانہ، ذمہ دارانہ سوچ کی کسوٹی پر پوری نہیں اُترتیں۔
مجھ جیسے لوگوں کو جنہوں نے اسلام کو ایک بیج سے تناوردرخت بنتے ہوئے دیکھا ہے، ایسی باتیں بڑی بچکانہ محسوس ہوتی ہیں۔ کہاں ہماری تربیت کی احتیاطیں کہ زبان کٹ جائے جو ایک لفظ بھی اِدھر کا اُدھر ہو جائے۔ لفظ تو لفظ لہجہ بھی غلط ہو جائے تو گرفت میں آ جائیں اور کہاں یہ اللے تللے کہ جو جی میں آیا بغیر سوچے، بغیر سمجھے، بغیر تصدیق کئے کہہ ڈالا۔
دراصل ہماری تربیت میں احتیاط کا عنصر ہمارے دین کا صدقہ ہے۔ یہ اللہ کا کلام ہے، یہ کلمات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت کی ہے۔ یہ قول اُن کی اپنی ذاتی حیثیت میں ہے، یہ فرض ہے، یہ واجب ہے، یہ حرام ہے، یہ سنت ہے، یہ مستحب ہے، یہ مباح ہے، یہ مکروہ ہے۔ کس قدر التزام سے ہمیں ان کے فرق سمجھائے جاتے تھے۔ کلامِ الٰہی کے بیان کرنے کے، پڑھنے کے، سننے کے اور اُن پر عمل کرنے کے آداب الگ بتائے جاتے تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو کلامِ الٰہی سے واضح طور پر الگ کر کے اُن پر عمل کرنے اور اُن کی اشاعت کرنے کے آداب الگ سکھائے جاتے تھے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے الفاظ کی توجیہہ اپنے نبیؐ کی زبان سے سنتے اور اُن کے عمل میں دیکھتے۔ اُن کا بغور مطالعہ کرتے اور جو دیکھتے، سنتے اُسے ذہنوں میں محفوظ کر لیتے اور اُسی طرح حرف بہ حرف لوگوں کو منتقل کر دیتے۔ ہمیں نہ صرف ان پر غوروفکر کی اجازت تھی بلکہ حکم تھا۔ لیکن کسی قسم کی رائے زنی اور حاشیہ آرائی گناہِ عظیم کے زمرے میں آتی تھی اور ہم سب کو اپنی عاقبت عزیز تھی۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ارشادات کی وضاحت کبھی تو اُس سیاق و سباق ہی سے ہو جاتی جن میں وہ الفاظ کہے جاتے، کبھی ہم سب بیٹھ کر اُس پر فکر کرتے اور جب تک اپنے اخذ کئے ہوئے نتیجے کی تصدیق خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کر لیتے، انہیں کسی کے آگے دہرانے کی جرأت نہ کرتے۔ نبی کریمؐ کا اس سلسلے میں واضح ارشاد ہے کہ جو شخص کسی سنی سنائی بات کو بلا تصدیق کسی اور کے سامنے دہرائے، وہ کاذب ہے۔ بعض دفعہ ایک ایک لفظ کی تشریح و توجیہہ اور اُس کے محل استعمال پر کئی کئی دن صرف ہو جاتے۔ ان سب احتیاطوں کے باوجود جو لفظ ہم اللہ اور رسولؐ کی طرف منسوب کرتے، اللہ تعالیٰ سے اپنے ممکنہ بشری سہو کی ہزار ہزار معافیاں مانگ کے اور جس کے سامنے بیان کرتے اُس کو بھی تلقین کرتے کہ وہ مزید تصدیق کر لے۔ یہ سب کچھ اس لیے تھا کہ مسلمان اپنے ہر قول و فعل کے لئے صرف اور صرف اپنے اللہ کو جواب دہ ہے اور وہ کسی صورت میں بھی اللہ کی گرفت میں نہیں آنا چاہتا۔
میرے دمشق کے دوستوں پر کبھی ایسی ذمے داری پڑی ہی نہیں۔ اُن پر تحقیق و تصدیق کے دور گزرے ہی نہیں۔ اس لیے مجھے اُن کی باتوں پر غصہ نہیں، ترس آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اُس کی فکری سطحیت کے شر سے محفوظ رکھے۔
میں جب ان سے پوچھتا ہوں کہ کوئی ایک فرد، ایک شہر، ایک قبیلہ مثال کے طور پر پیش کریں جسے اسلام لانے پر مجبور کیا گیا ہو تو اس کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ انہیں غالباً یہ علم بھی نہیں کہ اگر کوئی مسلمان کسی کو زبردستی اسلام لانے پر مجبور کرے تو وہ شاید نہیں، حتمی طور پر دوزخ میں جائے گا۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا انتباہ مختصر، مگر دو ٹوک ہے:
لا اکراہ فی الدین
یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ کوئی تلوار، کوئی دھمکی، کوئی دھونس، کوئی لالچ، کوئی دباؤ، کوئی رشوت انسان کو اہلِ ایمان نہیں بنا سکتی۔ اس فیصلے کا تو بندہ مجاز ہی نہیں ہے۔ یہ ذات وحدہ لاشریک ہے جو طے کرتی ہے کہ کسے ایمان لانے کی توفیق دی جائے گی۔ سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ تمام انسانوں سے، دمشق کے دانش وروں سمیت، یہ سوال پوچھتا ہے:
’’اگر آپ کا پروردگار چاہتا
تو روئے زمین پر جتنے بھی لوگ ہیں
سب کے سب ایمان لے آتے،
سو کیا آپ لوگوں پر جبر کر سکتے ہیں
جس سے وہ ایمان لے آئیں۔
کسی شخص کو یہ قدرت حاصل نہیں
کہ وہ ایمان لے آئے
بجز مشیتِ الٰہی کے،۔ (آیات 99 اور 100)
پھر کون کہتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا لیکن آپ کسی بات کو کسی بھی حد تک ناممکن ثابت کر دیں، پھر بھی آپ کو ایسے لوگ ہمیشہ مل جائیں گے جو اُسے یقینی کہتے رہیں گے۔ اس قسم کی باتیں کرنے سے پہلے انہوں نے اتنا تو التفات فرمایا ہو تاکہ اگر اسلام کو تلوار ہی کے ذریعے پھیلانا مقصود ہوتا تو استدلال کی کیا ضرورت تھی جو قرآنِ کریم کے دو تہائی سے زیادہ حصے پر پھیلا ہوا ہے۔
اتنا ضرور ہوا کہ ہمیں تشدد کے خلاف جہاد کا حکم مل گیا اور تشدد کی بھی یہی وجہ تھی کہ دشمنانِ اسلام کے پاس اسلام کے دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا اور وہ زچ ہو کر ہمیں اپنی طاقت سے کچلنا چاہتے تھے۔(جاری ہے )
حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر74 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں