جنرل عاصم منیر کا بیانیہ اور بھارتی اضطراب

جنرل عاصم منیر کا بیانیہ اور بھارتی اضطراب
جنرل عاصم منیر کا بیانیہ اور بھارتی اضطراب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جب قومیں آزمائش کے دور سے گزرتی ہیں، تو انہیں ایسے قائدین کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف میدانِ عمل کے سپاہی ہوں بلکہ فہم و فراست کے علمبردار بھی ہو۔
 آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی حالیہ جرات مندانہ تقریر نے نہ صرف پاکستان کی مسلح افواج کے نظریاتی استحکام کو واضح کیا بلکہ قوم کو ایک بار پھر یقین دلایا کہ پاکستان صرف سرحدوں پر ہی محفوظ نہیں بلکہ نظریاتی محاذ پر بھی مضبوط کھڑا ہے۔
جنرل عاصم منیر کی تقریر صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں تھی، بلکہ یہ ایک بیانیہ تھا۔ ایک واضح اور غیر مبہم پیغام کہ پاکستان کی خودمختاری، سالمیت اور نظریاتی سرحدوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے دشمن کو یہ باور کرا دیا کہ "ہم امن کے خواہاں ضرور ہیں، کمزور نہیں۔"
اپنی تقریر میں جنرل عاصم منیر نے ملک دشمن عناصر، دہشت گردی اور اندرونی انتشار پھیلانے والوں کو دو ٹوک الفاظ میں خبردار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ "ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کو ہر صورت کچلا جائے گا۔" یہ پیغام خاص طور پر ان قوتوں کے لیے تھا جو قومی اتحاد کو کمزور کرنے کی سازشیں کر رہی ہیں۔جنرل عاصم منیر کی تقریر نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کا دفاع صرف سرحدوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک نظریہ، ایک سوچ، اور ایک عقیدہ ہے۔
اس تقریر کے بعد میں شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد سے ملا ،تو اس نے جنرل عاصم منیر کی تقریرکی تعریف کی ۔عام آدمی سے لیکر بیورو کریسی کے اعلیٰ دماغوں تک سب نے اس تقریر کو سراہا ،  اوورسیز پاکستانیوں نےکہا کہ یہ تقریر نوجوان نسل کو پاکستان کی تاریخ اور نظریاتی بنیادوں سے جوڑنے کی کوشش کی۔اس تقریر کے بعد مودی سرکاری اور اس کے میڈیا کو آگ لگی کہ پاکستانی عوام کے دلوں میں جنرل سید عاصم منیر کی قدر و منزلت اور محبت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔اس کے بعد بھارت کے تین سازشی دماغوں نے بیٹھ کر پہلگام کی سازش تیار کی ۔
    ہندوستان کی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازش کھل کر سامنے آ ئی ہے ۔پہلگام فالس فلیگ حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات کیا تھے ؟ وہ اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہے ۔سندھ طاس معاہدہ،واہگہ بارڈر بند،سرحد بند،ویزے معطل ،بھارت نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا ہے ۔
    جب بھی برصغیر میں سیاست کی گرم ہوائیں چلتی ہیں، سب سے پہلے امن کے درختوں کی شاخیں جھکنے لگتی ہیں۔ حالیہ پاک،بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر خطے کے امن کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ سفارتی تعلقات کی تلخی نے ایک بار پھر تاریخ کو دہرایا ہے، جہاں پانی کی بوندیں بھی سیاست کی بھینٹ چڑھنے لگی ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو 19 ستمبر 1960ء کو ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ اس معاہدے پر پاکستان کی جانب سے اس وقت کے صدر ایوب خان اور بھارت کی جانب سے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستخط کیے۔ معاہدے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنا تھا تاکہ خطے میں کشیدگی نہ بڑھے۔معاہدے کی بنیادی شقوں کے مطابق دریائے سندھ کے نظام کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
مشرقی دریا: ستلج، بیاس اور راوی ان کا کنٹرول بھارت کو دیا گیا۔مغربی دریا: سندھ، جہلم، اور چناب ان کا کنٹرول پاکستان کو دیا گیا۔بھارت کو مغربی دریاؤں پر کچھ مخصوص شرائط کے تحت پن بجلی اور زراعت کے لیے پانی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن وہ ان دریاؤں پر کوئی ایسا منصوبہ نہیں بنا سکتا، جس سے پاکستان کو پانی کی فراہمی متاثر ہو۔
قیام پاکستان کے بعد، دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا کوئی واضح معاہدہ موجود نہیں تھا۔ اپریل 1948ء میں بھارت نے پنجاب کو پانی کی فراہمی عارضی طور پر بند کر دی تھی، جس سے پاکستان میں زرعی بحران پیدا ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک نے ایک پائیدار حل کی تلاش شروع کی، جس کے نتیجے میں سندھ طاس معاہدہ سامنے آیا۔
سندھ طاس معاہدہ دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگی کے باوجود اب تک نافذ العمل ہے، جو کہ اس کی پائیداری اور دونوں ممالک کی سنجیدگی کا ثبوت ہے۔ پاکستان میں زراعت کا بڑا انحصار مغربی دریاؤں پر ہے، اس لیے یہ معاہدہ ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔گزشتہ چند دہائیوں میں بھارت کی جانب سے مختلف ڈیمز اور ہائیڈرو پاور منصوبے، جیسے بگلیہار اور کشن گنگا، پاکستان کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ پاکستان نے کئی مرتبہ ان منصوبوں کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور معاملہ عالمی ثالثی فورمز تک لے گیا ہے۔ ان تنازعات کے باوجود معاہدے کو منسوخ کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے تنازعے کو حل کرنے کا ایک بہترین نمونہ ہے۔ اس معاہدے کی بقاء نہ صرف پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے لیے اہم ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ممالک معاہدے کی روح کے مطابق عمل کریں اور کسی بھی قسم کی کشیدگی سے گریز کریں تاکہ پانی جیسے اہم وسائل کا منصفانہ استعمال ممکن ہو سکے۔ دریاؤں کا بہاؤ روکنے کی کوشش کسی دشمنی سے کم نہیں۔ اگر پانی کو "ہتھیار" بنا دیا گیا، تو یہ عمل کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔
ویزوں کی منسوخی:
بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنا محض ایک کاغذی کارروائی نہیں، بلکہ دلوں کی دیواروں کو مزید بلند کرنے کی کوشش ہے۔ تعلیم، صحت، مذہبی زیارات اور ثقافتی روابط پر بندش لگانا ایک ایسا قدم ہے جو عوامی سطح پر موجود نرمی کو سختی میں بدل دیتا ہے۔یہ وہ رشتے تھے جو سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتے تھے۔ اب ان ویزوں کی بندش کے ساتھ وہ تمام خواب بھی بند الماریوں میں قید ہو گئے ہیں جو کبھی محبت، امن اور دوستی کے رنگوں سے بنے تھے۔
واہگہ بارڈر کی بندش:
 امن کے دروازے بند؟باڈر بند ؟تلواریں نیاموں سے باہر کیا یہی ہمسائیگی کے اصول ہیں ۔واہگہ بارڈر، جو کبھی سرحد پر امید کا دروازہ ہوا کرتا تھا، آج خاموش ہے۔ پرچم کشائی کی تقاریب جو جذبے، وقار اور قومی حمیت کا مظہر تھیں، اب کشیدگی کی گرد میں گم ہو چکی ہیں۔ سرحد کی بندش دراصل اعتماد کے اس پل کو توڑنے کی علامت ہے جو برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان کھڑا تھا۔کیا یہی حل ہے؟سوال یہ ہے کہ کیا یہی رویہ ہمیں آگے لے جائے گا؟ کیا ہم ہمیشہ ہر تنازعے کو ایک دوسرے کا گلا گھونٹ کر حل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ جنوبی ایشیا کی ترقی، خوشحالی اور امن اسی میں ہے کہ اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے سلجھایا جائے، نہ کہ پانی، پاسپورٹ اور پرچم کو نشانہ بنایا جائے۔ وقت اشتعال انگیزی کا نہیں، بلکہ بردباری، دانشمندی اور دور اندیشی کا ہے۔ اگر تاریخ سے کچھ سیکھنا چاہتا ہے تو جان لے کہ جنگیں صرف قبریں بناتی ہیں، پل نہیں۔ سندھ طاس معاہدہ جیسے معاہدے ختم کرنے سے پانی رک سکتا ہے، لیکن نفرت کے سیلاب کو کون روکے گا؟

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -