واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) پاکستان کے میزائل پروگرام سے مبینہ طور پر منسلک چار پاکستانی کمپنیوں پر پابندی کے حوالے سے بائڈن انتطامیہ اور پنٹاگون میں بھی اختلاف رائے موجود ہے۔پنٹا گون نے وائٹ ہاؤس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے اس دعوے کے بعد کہ ملک ’امریکہ میں اہداف کو نشانہ بنانے‘ کی صلاحیت حاصل کر سکتا ہے، پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے محتاط لہجہ اختیار کرلیا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پریس بریفنگ میں پینٹاگون کے پریس سیکریٹری میجر جنرل پیٹ رائیڈر سے جب پاکستان کی سرکاری میزائل ڈیولپمنٹ ایجنسی اور اس کے تین نجی وینڈرز پر امریکی پابندیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے براہ راست تنقید سے گریز کیا۔پیٹ رائیڈر نے پاکستان کی فوج کے ساتھ پینٹاگون کے دیرینہ تعلقات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم خطے میں ایک پارٹنر کے طور پر پاکستان کی قدر کرتے ہیں اور ماضی میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔‘انہوں نے پاکستان کی میزائل ڈیولپمنٹ یا پابندیوں پر مزید تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، اور اس طرح کے سوالات دیگر امریکی ایجنسیوں سے کرنے کا مشورہ دیا۔پینٹاگون کی طرف سے یہ معتدل ردعمل قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کے بیانات کے بالکل برعکس ہے، جنہوں نے جمعرات کو پاکستان پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کی صلاحیتوں کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا جو امریکا کے لیے ’ابھرتا ہوا خطرہ‘ بن سکتا ہے۔کارنیگی انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں خطاب کرتے ہوئے جان فائنر نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بارے میں ’حقیقی خدشات‘ کا اظہار کیا اور کہا تھا کہ اپنی ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر اسلام آباد خود کو جنوبی ایشیا سے بہت آگے اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل بنا سکتا ہے۔پینٹاگون کا محتاط رویہ پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے کے اس کے ارادے کو نمایاں کرتا ہے، جو کہ ماضی میں امریکی زیر قیادت آپریشنز میں ایک اہم علاقائی شراکت دار رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ موقف اسلام آباد کو خود سے الگ کرنے سے بچنے کی دانستہ کوشش کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب امریکہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے کیونکہ پاکستان کی سرحدیں دونوں خطوں سے ملتی ہیں۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پینٹاگون کا خاموش ردعمل دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ سیاسی تعلقات کے دوران بھی پاکستان کے ساتھ ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کو برقرار رکھنے کی اس کی تاریخ سے مطابقت رکھتا ہے۔اس کے برعکس، وائٹ ہاؤس کی مزید محاذ آرائی والی بیان بازی بائیڈن انتظامیہ کے اندر اسلام آباد کی اسٹریٹجک سمت پر بڑھتی ہوئی مایوسی کی عکاسی کرتی ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام کے حوالے سے امریکی رویہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید کشیدہ کر سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے سینئر امریکی عہدیدار کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی میزائل صلاحیتوں اور ترسیل کے ذرائع سے مبینہ طور پر خطرے کا اظہار افسوسناک ہے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ الزامات بے بنیاد اورحقیقت کے برعکس ہیں، پاکستان نے امریکا کے ساتھ تعلقات کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں، پاکستان اور امریکہ کے درمیان 1954 سے مثبت اور وسیع تر تعلقات رہے ہیں، اور یہ بنیادی حقیقت تبدیل نہیں ہوئی۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ ایک بڑے غیر نیٹو اتحادی کے خلاف امریکہ کے حالیہ الزامات مجموعی تعلقات کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوں گے، خاص طور پر اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہ ہونے کی صورت میں ان الزامات کی کوئی اہمیت نہیں، پاکستان نے کبھی بھی کسی بھی شکل یا طریقے سے امریکہ کے خلاف کوئی بدنیتی نہیں رکھی۔انہوں نے کہا کہ خطے میں امریکی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے نتیجے میں ہونے والے حملوں سے ہمیں بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی تذویراتی صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہے، پاکستان ایسی صلاحیتیں تیار کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا، جو قابل اعتماد کم از کم ڈیٹرنس کے ساتھ ساتھ ابھرتے ہوئے اور متحرک خطرات کو ختم کرنے کی ضرورت کے مطابق ہوں۔
امریکی اختلاف