ہم موم بتیاں ہیں ۔۔۔
ہاتھوں میں رسیاں ہیں
پیروں میں بیڑیاں ہیں
آنکھوں میں ایک جنگل
جنگل میں سیپیاں ہیں
میں خواب کیا سناؤں
ہونٹوں پہ کرچیاں ہیں
شہزادیاں تھیں پہلے
اب صرف لڑکیاں ہیں
اک ایک کر کے بجھتی
ہم موم بتیاں ہیں
لکھ کر مٹا دی جائیں
ہم وہ کہانیاں ہیں
ہم پر بھی اک صحیفہ
ہم حوا زادیاں ہیں
فریحہ نقوی