اخوان المسلمون میں شہادتوں کی تاریخ کا نیاتابندہ باب

اخوان المسلمون میں شہادتوں کی تاریخ کا نیاتابندہ باب
 اخوان المسلمون میں شہادتوں کی تاریخ کا نیاتابندہ باب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصر میں 67 سالہ عظیم شخصیت نے اخوان المسلمون کی شہادتوں کی تاریخ میں ایک نیا تابندہ باب لکھ دیا اور خاموشی سے موت کو گلے لگا لیا۔ 30 جون 2012ء تا 3 جولائی 2013 ء مصر کے منتخب صدر بھی رہے ان کے خلاف، یعنی ان کی حکومت کے خلاف ریلیاں نکالی جا رہی تھیں، جنہیں بہانہ بناکر ان کے وزیر دفاع اور آرمی چیف عبدالفتح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا،جہاں ان پر تشدد بھی کیا جاتا رہا انہیں قید تنہائی میں بھی رکھا جاتا رہا، انہیں شوگر کا مر ض بھی تھا اور بلڈ پریشر بھی انہیں طبی سہولتیں بھی فراہم نہیں کی جاتی تھیں ملکی قوانین کے مطابق اورعالمی انسانی حقوق بھی نہیں دیئے جا تے رہے وہ 17جون کو قاہرہ کی ایک عدالت میں لائے گئے، جہاں انہوں نے چند منٹ عدالت سے خطاب کیا اسی دوران وہ بے ہوش ہو کر گرے اور جان بحق ہو گئے۔

مصر کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہو ئی۔ ان کے بیٹے احمد مرسی کے مطابق انہیں 18 جون کو قاہرہ کے ایک قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ انہیں دریائے نیل کے ڈیلٹامیں واقع ان کے آبائی علاقے شرقیہ میں دفن کرنا چاہتے تھے، لیکن مصری حکام نے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا نہ ہی لوگوں کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی۔


عالم عرب کی تاریخ حاضر کا ایک بہت اہم بات ختم شدہوا، لیکن جس کتاب کا یہ باب تھے وہ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ویسے تو خیر وشر کی معرکہ آرائی، ابتدائے آفرینش سے جا ری ہے، لیکن دورِ حاضر میں جاری معرکہ آرائی کی ابتداء گزشتہ صدی سے اس وقت ہوئی جب برطانوی استعمار نے مصر میں اپنے نا پاک قدم رکھے اور اپنی نو آبادیات قائم کرنا شروع کیں۔ انہوں نے یہاں اسلام کی بیخ کنی کے لئے پان عرب ازم یعنی عرب نیشنل ازم کو فروغ دینا شروع کیا تاکہ نوجوانوں کی دین اسلام کے ساتھ وابستگی کم از کم ہو اور وہ تہذیب ِ مغرب کے اسیر ہوتے چلے جائیں برطانوی استعمار کے ساتھ فرانسیسی اور اٹلی کی عیسائی اقوام نے بھی یہاں پنجے گاڑنے شروع کئے مغربی فکری و تہذیبی یلغار کے مقابلے میں ایک مصری سکول ٹیچر حسن البناء نے ایک ہمہ گیر تحریک ”اخوان المسلمون“یعنی ”مسلم برادر ہڈ“کی بنیاد رکھی۔

یہ دراصل عرب نیشنل ازم کے مقابلے میں خالص اسلامی اخوت کا پیغام تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے اخوان پورے خطے میں پھیل گئے ان کی دعوت پر نو جوانوں نے لبیک کہا اور ”اخوان المسلمون“کے جھنڈے تلے منظم ہو کر اسلامی فکر وتہذیب کے احیاء وبقا کے لئے کام کرنے لگے۔ہنوزیہ کام جاری ہے۔اسی دور میں ایک عیسائی دانشوار ما ئیکل افلاک نے عرب قومیت کے فروغ کے لئے منظم کاوشیں شروع کیں اور بعث پارٹی کی بنیاد رکھی مائیکل افلاک نے نوجوانوں کو ماضی کی فرعونی تہذیب کے ساتھ جوڑنے اور فرعونوں کی اولاد اور باقیات ہونے پر فخر کرنے کی ترغیب دینا شروع کی۔

اسے استعماری قوتوں کی فکری، نظری، مالی اور تنظیمی معا ونت بھی حاصل تھی اخوان کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹنے کیلئے مصر،عراق اور شام میں بعث پارٹی کی حکمرانی بھی قائم کر دی گئی۔ بعثی حکمرانوں نے اخوان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے ایک صحا فی احمد رائف کیچھ عرصہ مصر میں قید رہا اس نے قید سے رہائی کے بعد مصری عقوبت خانوں میں اخوان کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے بارے میں اپنے مشاہدات کو ”رودادِ ابتلا“ کے نام سے قلمبند کیا اس کتاب نے حقوق انسانی کے علمبر داروں اور مغربی معاشرے میں موجود انسانیت دوست لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ یہ کتاب 80ء کی دہائی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نصاب میں شامل تھی ادارہ مطبوعات ِ طلبہ نے اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع کئے تحریک اسلامی کے نوجوان اس کتاب کو پڑھ کر نہ صرف اخوان کی عز یمت کے قائل ہوتے، بلکہ اپنے آپ کو بھی ظلم و ستم اور دارورسن کی آزمائشوں کے لئے ذہنی طور پر تیا ر رکھتے تھے۔


عرب حکمرانوں نے اپنے عوام پر جس قدر ظلم و ستم ڈھا ئے اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے اتنے ظلم تو شاید اسرائیلیوں نے فلسطینیوں پر نہیں ڈھائے ہوں گے عرب دُنیا میں سرخ و سفید سامراجی اقوام نے اس بات کی منظم کا وشیں کیں کہ یہاں حقیقی عوامی قیادت اُبھرنہ سکے۔ انہوں نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ عرب نوجوانوں میں دینی حمیّت اور شعور پیدا نہ ہو سکے ایک طرف عرب حکمران، جو غیر ملکی آقاؤ ں کے اشاروں پر چلتے تھے اور اپنے عوام پر ظلم کر تے تھے دوسری طرف فکری اور نظری افتراق و انتشار کی ترویج حیران کن بات ہے کہ دورجدید میں عرب نوجوانوں کو فراعنہ کے ادوار کی یاد میں بیتاب کرنے کی کاوشیں کی گئیں عرب قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دے کر اسلامی تحریک کو کمزور کرنے کی کاوشیں کی گئیں، لیکن عرب نوجوان اخوان کی آسان اور پر اثر دعوت کے اسیر ہوتے چلے گئے حسن البناء کی برپا کردہ تحریک نے علم وفن میں ہی نہیں بلکہ ایثار و قربانی کے میدان میں بھی شاندار مثالیں قائم کیں۔

سید قطب، عبدالقادر عود ہ جیسی بے مثال شخصیات اسی داستان عز یمت کے روشن مثالیں ہیں۔
محمد مرسی اخوان المسلمون سے متاثرین کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے تھے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ جدید دنیا سے آشنا شخص تھے۔ انہوں نے اخوان کی دعوت پر لبیک کہا اور پھر اسلام کا پیغام لے کر آگے بڑھے اور پھر بڑ ھتے ہی چلے گئے۔ حتیٰ کہ جان، جان ِ آفرین کے سپرد کرکے اپنا نام اور اعلیٰ مقام متعین کر گئے۔ مصری حکمرانوں کا اخوان کے ساتھ ایسا غیر انسانی سلوک نیا نہیں ہے وہ گزری سات دہائیوں سے ایسا ہی کرتے چلے آرہے ہیں اصل بات اور حیران کن بات یہ ہے کہ اخوان کا قافلہ رکا نہیں۔ ان کا عزیمت کا سفر رکا نہیں ہے اخوان پورے خطہ ئ عرب میں ایک مسلم اور مستحکم قوت کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں عرب ممالک میں جتنی بھی اسلامی و جہادی تحریکیں چل رہی ہیں ان کی فکری تعمیر و تشکیل میں اخوان کے لٹریچر کا ہاتھ ہے متشدد جہادی تنظیموں کے افراد میں بھی پرانے اخوانی شامل ہیں۔

دورِحا ضر کی سب سے بڑی جہادی تحریک ”القاعدہ“کی تشکیل اردنی فلسطینی پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ عزام کے ہاتھوں ہوئی تھی آپ اخوان کے بنیادی سینئر اراکین میں شامل تھے۔مصر میں شاہ فاروق حکومت کاتختہ اُلٹنے اور جمال ناصر کی حکومت کے قیام میں اخوان نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔عبداللہ عزام، اخوان کی اس ٹیم کے سربراہ تھے،جو نا صر کے ساتھ رابطوں میں تھی۔حماس کی تشکیل اور تنظیم میں شامل افراد اکا تعلق بھی اخوان سے ہی تھا یہی وجہ ہے کہ محمد مرسی پر الزام تھا کہ ان کی حکومت حماس کی مدد کر رہی ہے قاہرہ میں ان پر اسی الزام کے تحت مقدمہ چل رہا تھا۔

اخوان المسلمین، بنیادی طور پر دعوت، تبلیغ اور تنظیم کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتے ہیں مسلح جدو جہد کے ذریعے انقلاب کا تصور نہیں رکھتے۔ گویا اذہان کی تبدیلی اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے اسلامی حکومت کا قیام ان کے اہداف میں شامل ہے عرب بہار کے بعد مصر میں جب ووٹ کے ذریعے تبدیلی کا عمل شروع ہوا تو مصر ی عوام نے اخوان کے حق میں ووٹ دیا ووٹ کے ذریعے محمد مرسی مصر کے پہلے منتخب صدر بنے، لیکن استعماری قوتوں کو یہ تبدیلی، حقیقی تبدیلی گوارا نہیں تھی۔

فوج نے مرسی حکومت کے خلاف مظاہروں کا بندوبست کیا اور پھر انہی مظاہروں کو بنیادبناتے ہوئے ان کی حکومت پر قبضہ کر لیا اور مرسی کو جیل میں بند کر دیا جہا ں وہ چھ سال تک غیر انسانی سلوک برداشت کرتے کرتے عزیمت کی داستان رقم کر گئے ان کی شہادت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اخوان ہی عربوں کی حقیقی نمائندہ قوت ہے۔ زندہ ہے۔ توانا ہے اسے ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔ اللہ تعالیٰ محمد مرسی کی شہادت کو قبول فرمائے آمین۔ یا رب العالمین

مزید :

رائے -کالم -