یہ چند روز کا قصہ ہے۔ مجھے اپنے دفتر جیل روڈ سے مشرق بلڈنگ میکلوڈ روڈ تک جانا تھا، اس کے لئے سیدھا راستہ تھا کہ گنگارام ہسپتال کے سامنے سے ہوتے ہوئے چیئرنگ کراس سے گزر کر چلا جاؤں اور ایسا ہی ہوا تاہم چوک پر رکنا پڑا کہ اشارہ بند تھا، میرے ساتھی نے اشارہ کھل جانے پر جب گاڑی آگے بڑھائی تو سامنے بیرئیر لگے اور پولیس ملازم ڈیوٹی دے رہے تھے انہوں نے روک لیا میں نے ان کو اپنی شناخت کرائی اور بتایا کہ اس راستے میکلوڈ روڈ جانا ہے۔ انہوں نے ایک نہ سنی اور اسمبلی گیلری کا پاس دکھانے کو کہا جو میرے پاس ہونا بھی نہیں چاہیے کہ میں اسمبلی کی کوریج تو نہیں کر رہا، تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد میں پسپا ہوا تو دوست نے کہا چلیں ایجرٹن روڈ چوک سے چلے جاتے ہیں، اس طرف سے ہمیں چوک تک داخلہ مل گیا لیکن سامنے ڈیوٹی فری شاپ کی طرف والی سڑک بھی بیریئر لگا کر بلاک کی گئی اور اسی طرح بائیں ہاتھ والی سڑک پر بھی بیریئر لگے ہوئے تھے اسمبلی کی طرف سے گاڑیاں آ رہی تھیں لیکن ادھر سے جا نہیں سکتی تھیں،یہاں بھی مہذب انداز سے سرکاری اہلکار حضرات سے گزرنے کی درخواست کی تو وہ نہ مانے اور بتایا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اور جب تک اجلاس ختم ہو کر معزز نمائندگان چلے نہ جائیں راستہ نہیں کھلے گا۔
میرے لئے یہ بہت زیادہ حیرت کی بات تھی کہ جب ہم اسمبلی کی کارروائی رپورٹ کرنے کے لئے آتے تھے تو صرف گیٹ پر پوچھا جاتا تھا، ورنہ کوئی سڑک بند نہیں ہوتی تھی جبکہ اس بار جو دیکھا تو کرفیو جیسی صورتحال تھی میں سوچ رہا تھا کہ یہ جو ہمارے نمائندے ہمارے جیسے شہریوں کے ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں تو ان کو کس کا خوف ہے کہ اسمبلی کی پرانی اور نئی عمارت کی چار دیواری مضبوط اور آمد و رفت شناخت کے بغیر ممکن نہیں اس کے باوجود انداز تو یہ ہے کہ تخریب کاری کے خدشات ہیں حالانکہ صوبائی ایوان نمائندگان کے لئے اسمبلی کا سکیورٹی سٹاف اور معاونت کے لئے پولیس بھی موجود اور پھر پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا،عام لوگوں کے لئے راستہ کھلا ہوتا تھا، اب تو کوپر روڈ، میکلوڈ روڈ اور ایجرٹن روڈ کی طرف آنے جانے والوں کو پر مارنے کی گنجائش نہین دی جا رہی اور پھر نہ صرف اسلامیہ گرلز کالج کوپر روڈ کی طالبات اور ان کے والدین کو پریشانی اٹھانا پڑتی بلکہ لنک روڈ پر ڈیوٹی فری شاپ اور اس سے ملحقہ کاروبار کے علاوہ دیگر دکان تک کسی کی رسائی ممکن نہیں اور یہ سب ان منتخب نمائندوں کے لئے ہے جو گلی گلی،کوچے، کوچے پھر کر ووٹ مانگتے ہیں اور جب منتخب ہو کر آ جائیں تو نہ صرف وعدے بھول جاتے ہیں بلکہ ان کو اپنی سلامتی کی فکر بھی لاحق ہو جاتی ہے ان کی بے جا سکیورٹی سے عوام کتنے بھی پریشان ہوں۔
میں نے اس سلسلے دوچار پرانے اراکین اسمبلی سے بات کی انہوں نے بڑی آسانی سے یہ کہہ کر جان چھڑالی کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں،میرے ساتھ صرف ایک ایم پی اے نے بات کی جو کئی بار منتخب ہو کر یہاں آ چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یہ سب حضرات کا کیا دھرا ہے جنہوں نے پرانی اسمبلی کے عقب مین سبزہ زار ختم کر کے اس عذر کے ساتھ اربوں روپے کے اخراجات سے ایک اور اسمبلی بنا کر نہ صرف سبزہ ختم کیا،بلکہ جگہ تنگ ہونے کے علاوہ ٹریفک کی آسانی کے لئے عوام کو پریشان کیا جاتا ہے جب جبراً متبادل راستے اختیار کر کے اپنا کام نمٹانا ہوتا ہے ورنہ اس قدر سکیورٹی یا سکیورٹی کے نام پر بندش سے کوئی فرق تو پڑا نہیں کہ ایک بڑا ہال بنا کر سبزہ ختم کر دیا گیا ہے۔
میں یقینا حیران ہوا کہ اسمبلی کی پرانی عمارت میں سالہا سال رپورٹنگ کی لیکن کچھ مسئلہ نہ ہوا تاہم جب ایوان میں اراکین کی تعداد میں اضافہ ہوا تو مشکل ضرور ہوئی اور اس کا حل تعمیر کنندگان کی پیش بندی سے نہ کیا گیا اور قوم کے اربوں روپے خرچ کرکے اسی کے عقب میں نئی عمارت بنا دی گئی، مجھے یاد ہے کہ جب محمد حنیف رامے وزیراعلیٰ تھے تو جگہ کی قلت کا مسئلہ سامنے آیا ان کی ایک تجویز تو یہ تھی کہ نہ صرف اسمبلی،بلکہ سول سیکرٹریٹ اور صوبائی اسمبلی کے اراکین کے لئے رہائش سب ایک جگہ کر دیئے جائیں اور ٹریفک کے مسائل سے نجات حاصل کی جائے اس کے لئے انہوں نے رائے ونڈ روڈ یا کالاشاہ کاکوکے قریب تر موٹروے کے ساتھ پورا کمپلیکس بنانے کی تجویز دی تھی جو کسی نے نہ مانی یوں بھی تب ایک سے دو ملک بنے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور ملک کی معیشت کو بحال کرنا بڑی ذمہ داری تھی چنانچہ ان کے دور میں ایسا نہ ہوا۔بعد میں آنے والے صاحب نے جو پنجاب کے سپیکر رہے بلکہ وزیراعلیٰ بن گئے یہ طے کرلیاکہ یہیں سب کچھ رہے، چاہے کوئی بھی شکل ہو، میں نے اور پریس گیلری کے دوچار دوسرے اراکین نے گذارش کی کہ اس مقصد کے لئے تعمیر کنندگان نے توسیع کی گنجائش رکھی ہوئی اس عمارت کے عقب میں ہے، سابقہ نقشے (پہلے) کے مطابق پچھلی طرف توسیع کرنے کی گنجائش پڑے گی اور سہولت ہو گی،ہم نے اس سلسلے میں لکھا بھی اور اکثر اراکین بھی اسی حق میں تھے لیکن کسٹوڈین حضرات نے نہ مانا اور کہا کہ توسیع ممکن نہیں،حالانکہ پرانی اسمبلی کی ڈیزائننگ اور تعمیر واضح کر رہی تھی کہ توسیع کی گنجائش ہے اور پرانی عمارت ہی کو بڑھا کر ضرورت پوری کی جا سکتی ہے لیکن زور والے نہ مانے اور نئی عمارت کی منظوری دی اور تخمینے لگے، بجٹ منظور ہوا اور پھر تعمیر کا آغاز ہو گیا۔مقررہ وقت پر عمارت تعمیر نہ ہو سکی تو توسیع کرائی گئی اور یوں ساتھ ساتھ بجٹ بھی بڑھتا گیا، میں تو عرض کروں گا سرکار کو اس دانشور سے حساب لینا چاہئے جو پرانی عمارت کی توسیع کی اجازت دے اور لے کر ملک و قوم کے اربوں روپے لگا چکے،ان کا مقصد صرف اور صرف اسمبلی کی تعمیر ہی نہیں کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ میرا یقین ہے کہ اجلاسوں کی طرف سے عوام کو جو پریشانی ہوتی ہے اور جتنا یہ علاقہ گنجان ہو گیا ہے اس سے اسمبلی کی ہیت تو پہلے ہی تبدیل ہو گئی مزید کیا ہو گی البتہ یہ یقینی بات ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی روز پھر شہر سے باہر جائے گا کہ زیادہ دیر عوام کو مسلسل پریشان نہیں رکھا جا سکتا۔