واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) امریکی صدر جو بائیڈن نے 40 وفاقی قیدیوں میں سے 37 کی سزائے موت معاف کر دی۔ کہا جا رہا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے پیش نظر یہ اقدام اٹھایا گیا ہے کیونکہ ان کے پہلے دور حکومت میں متعدد سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا تھا۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اپنے عہدے کے اختتام سے ایک ماہ سے بھی کم وقت پہلے، بائیڈن کو سزائے موت کے مخالفین کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا تھا کہ موت کے منتظر قیدیوں کی سزا کو بغیر پیرول کے عمر قید میں تبدیل کیا جائے، جو اب ان 37 قیدیوں کے لیے نافذ ہوگی۔
یہ اقدام وفاقی سزائے موت پر عائد پابندی کے مطابق ہے، جو صدر جوبائیڈن کے دورِ صدارت میں نافذ کی گئی تھی۔ تاہم دہشت گردی اور نفرت پر مبنی قتل کے مرتکب چند ہائی پروفائل مجرم اب بھی سزائے موت کا سامنا کریں گے۔
صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا "یہ معافیاں میری انتظامیہ کی جانب سے وفاقی سزائے موت پر عائد پابندی کے مطابق ہیں، سوائے ان مقدمات کے جن میں دہشت گردی یا نفرت پر مبنی قتل شامل ہوں۔"
تین قیدی جن کی سزائیں برقرار رہیں گی، ان میں ڈزخار سرنائیف (2013 کے بوسٹن میراتھن بم دھماکے کا مجرم)، ڈیلن روف (2015 میں چارلسٹن کے ایک سیاہ فام چرچ میں 9 افراد کے قاتل) اور رابرٹ باؤرز (2018 میں پٹسبرگ کے ٹری آف لائف عبادت گاہ میں 11 یہودیوں کے قاتل) شامل ہیں۔
معاف کیے گئے قیدیوں میں نو افراد ایسے تھے جنہوں نے قید کے دوران دیگر قیدیوں کو قتل کیا، چار بینک ڈکیتیوں کے دوران قتل کے مرتکب تھے، اور ایک نے جیل کے محافظ کو ہلاک کیا۔
جوبائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران سزائے موت کے مخالف ہونے کا عزم کیا تھا، جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ حکومت کے دوران 2003 کے بعد پہلی بار جولائی 2020 میں وفاقی سزائے موت کو بحال کیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے آخری چھ مہینوں میں 13 افراد کو زہریلے انجیکشن کے ذریعے سزائے موت دلوائی، جو گزشتہ 120 سالوں میں کسی بھی امریکی رہنما سے زیادہ ہے۔
امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے 23 نے سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے، جب کہ چھ ریاستوں میں اس پر پابندی عائد ہے۔ رواں سال اب تک امریکہ میں 25 مجرموں کو سزائے موت دی جا چکی ہے، لیکن یہ تمام ریاستی سطح پر تھیں۔