موت بہت سے ارمانوں کو نگل جاتی ہے، دادا سے ملاقات نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ میرے ساتھ رہا، ان جیسے لوگ معاشرے سے ناپید ہوچکے ہیں 

Dec 23, 2024 | 11:30 PM

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:27
 ابا جی اور اپنی دادی سے اپنے دادا اور بابا جی کی باتیں سنتا تو فخر محسوس کرتا اور میرے بدن میں ایک عجیب سی کیفیت کی لہر دوڑ جاتی اور دل میں آتا کہ کاش میں نے اپنے دادا کو دیکھا ہوتا، ان کے ہونٹوں کا لمس اپنے ماتھے پر محسوس کیا ہوتا، ان کی بانہوں میں سمٹ کر ان کی خوشبو میں رچ بس گیا ہوتا لیکن موت بہت سے ارمانوں کو نگل جاتی ہے، بہت سی خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ ان سے ملاقات نہ ہونے کا دکھ ہمیشہ ہی میرے ساتھ رہا۔ ان جیسے لوگ اب ہمارے معاشرے سے ناپید ہوچکے ہیں۔اب کو ئی بابا غلام مرتضیٰ مشکل ہی ملے گا۔ اس دور کے آخری بڑے آدمی یعنی ابا جی کو چند سال پہلے میں اپنے ہاتھوں منوں مٹی میں دفن کر آیا تھا۔ وہ اس دار فانی سے کوچ کرکے اپنے جیسے سبھی لوگوں کو ساتھ لے گئے ہیں ماسوائے انکل شاہ کے۔
صاحب رشید کا انتقال؛
غالباً اگست 1946ء میرے دادا دورے پر جارہے تھے کہ ان کی گاڑی سامنے سے آنے والے تانگے سے ٹکرا گئی اور اس حادثے میں وفات پا گئے۔ سجان پور اپنے باغ میں ہی دفن ہوئے۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ وہ پاکستان جس سے ان کو عقیدت تھی، جس کی آزادی کی جدوجہد کے لئے انہوں نے نوکری بھی داؤ پر لگا دی تھی۔اس کا قیام عمل میں آتے نہ دیکھ سکے۔ یوں ایک اور گمنام سپاہی آزادی کے راستے میں گم ہو گیا۔ ابا جی ان دونوں اپنی ہمشیرہ اور میری پھوپھونسیم کے پاس لیہ گئے ہوئے تھے جہاں انکل مظہر کی پوسٹنگ تھی۔ اس دور میں لیہ سے پٹھانکوٹ کے لئے نہ تو کوئی براہ راست ریل چلتی تھی اور نہ ہی بس۔ وہ جنازے کے اگلے روز پہنچے۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب میرے والد کی پیدائش ہوئی تو میرے دادا ملک میں نہ تھے اور جب میرے دادا کا انتقال ہوا توابا جی اپنے والد کے جنازے کو کندھا نہ دے سکے تھے۔ موت ایک بڑا آدمی اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ دو بیٹے، چھ بیٹیاں اور سینکڑوں افراد کو روتا چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ بے شک اللہ نے اس درویش منش انسان کواپنے جوار رحمت میں اونچا مقام دیا ہو گا۔ درویشی کی بڑی نشانی یہ ہے کہ جنازے میں شریک لوگوں کی بڑی تعدا د فرط جذبات اور غم میں ڈوبی مرنے والے کی وہ خوبیاں بیان کر رہی ہو جو مرنے والے کی زندگی میں لوگوں سے مخفی رہیں ہوں۔ لوگ مرنے والے کی مغفرت کی دعا آنسو بہا کر کریں۔ میرے دادا اللہ کے بندوں سے محبت کرتے تھے، دکھ میں ان کوراحت پہنچانے کی کوشش کرتے، سکھ میں ان کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ میرا ایمان ہے کہ ایسے انسان ہی اللہ کے ہاں سب سے زیادہ مقبول ہوں گے۔ صاحب رشید ایسا ہی تھا۔ 
1952ء تک ابا جی باقائدگی سے ہندوستان جاتے رہے۔تب تک میرے دادا کی قبر باغ میں موجود تھی۔ اس کے بعد نہ وہ جا سکے اور نہ کوئی اور۔ پھر ان کو کسی واقف کار نے بتایا کہ نہ باغ رہا ہے اور نہ ہی قبر اور نہ ہی صاحب رشید کی حویلی۔یوں سجان پور کے صاحب رشید کی کہانی اپنے انجام کو پہنچی۔قبریں مٹ جاتی ہیں لیکن لوگ اپنے کام کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔میرا دادا بھی مرنے کے کئی سال تک اپنے دوستوں، کولیگز اور ماتحتوں کے درمیان نیک نامی کے ساتھ زندہ رہے۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں