سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 36

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 36
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 36

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سلطان نے رچرڈ کو جو خط لکھا اس میں مزید کہا
’’اے رچرڈ تم بیت المقدس پر اپنے پروردگار کا ذکر اس طرح کرتے ہو گویا وہ جزیرۂ انگلستان کا کوئی گرجا ہے۔جہاں تمہاری پیشوائی کیلئے مخملیں راستے گلباری کا انتظار کر رہے ہیں۔بیت المقدس کی فصیلیں ثابت ہیں۔مورچے موجود ہیں ،دمرے قائم ہیں۔اطراف کی آبادیاں ویران کی جا چکی ہیں،کنووں میں زہر ڈال دیا گیا۔میدانوں میں گھوکھردبچھا دیئے گئے اور صلاح الدین کے سپہ سلار جو دمشق سے اس کے جلسوں میں نکلے تھے،زندہ ہیں۔سلامت ہیں۔اور ان کی تلواریں تمہارے خون کی پیاسی ہیں،منتظر ہیں۔

شام کی سردی جس کے تم شاکی ہو۔انگلستان کے برف بار موسم سرما سے جس کے تم عادی ہو،کہیں کم ہے،برف باری اور ژالہ باری کی شکایت تو ہم کو کرنی چاہیے جس کا بیشتر لشکر صحراؤں کی کڑی دھوپ کا تربیت یافتہ ہے۔اورعسقلان ؟ہم عسقلان کوبحری ڈاکوؤں کا آرام خانہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے۔اس کو بنیادوں سے اکھاڑکر پھینک دینا ہو گا۔ہم اس فیصلے پر اٹل ہیں۔بیت المقدس پر اس طرح قابض رہیں گے جس طرح ہیں۔اسلام نے دوسرے مذاہب کے مقامات مقدسہ کی تحریم کا سبق دیاجو ہمیں یاد ہے۔اس لئے عسائیوں کوزیارت کی اجازت عطا کی گئی ،اجازت برقرار رہے گی۔اس سے زیادہ ایک اینٹ نہیں،ایک دانہ نہیں،ایک لفظ نہیں۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عزیزم!تمہاری غریب الوطن فوجیں خستہ ہو چکیں۔ فریڈرک مرچکا،بادشاہ فرانس واپس جا چکا۔بڑے بڑے نواب، بیرن، نائٹ، سرداراور سورما خاک کا پیوند ہو چکے، تمہاری ننھی منی ریاست تمہارے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے۔تمہارابھائی تمہاراقائم مقام اپنی تاج پوشی کا منصوبہ بنا رہا ہے اور تم واپس جا رہے ہو بلکہ جہازیوں کو کوچ کا حکم دے چکے ہو تاہم جنگ کی دھمکی دے رہے ہو۔ہم اپنے وطن میں اپنے عزیزوں کی قربت سے آسودہ ہیں۔کوئی نعمت ایسی نہیں جو ہماری حضوری سے مشرف نہ ہو سکتی ہو۔کوئی دنیاوی خواب ایسا نہیں جس کی تعبیر ہمارے حضور سے مودب نہ گزری ہواس صلیبی لڑائی کو اس جنگ عظیم کو صلاح الدین نے تنہا جھیلا ہے۔عالم اسلام کا کوئی تاجدار ایسا نہیں جس نے ہماری مدد کی پیشکش نہ کی ہو اور جسے ہم نے ٹھکرانہ دیا ہو۔تاہم اے بادشاہ اگر بیت المقدس کی حفاظت کیلئے ضرورت ہوئی تو ہم عالمِ اسلام کے ایک ایک بادشاہ اور ایک ایک فقیر کے سامنے دست سوال دراز کریں گے اور اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک ایک ایک سپاہی شہید نہیں ہو جاتا۔
عکہ کے چاروں ہزار بے گناہ اور امان پائے ہوئے مسلمان کے قاتل ،تمہاری بہن اس شان کے ساتھ جو ایک بادشاہ زاوی کے شایاں ہے،رخصت کی جاتی ہے۔‘‘
خط کو ملک العادل کے حوالے کر کے وہ سراپردہ خاص کے اندر چلاگیا۔جہاں جین رخصت ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔
***
قصرِ دمشق کے پہلو میں بنی ہوئی مسجد کے میناروں سے بلند ہوتی ہوئی پرسوز اذان کی آوازنے سلطان اعظم کے بہتے ہوئے خیالوں کی روانی روک لی۔وہ بے چینی سے اٹھے۔وضوکر کے جانماز پر کھڑے ہو گئے۔جب تک سورج کی کرنیں سلام کو حاضر نہ ہوئیں وہ اسی طرح درودوظائف میں مشغول رہے۔بازیاب ہونے والے پہلے غلام کوبیٹھے ہی بیٹھے حکم دیا۔
’’مغرب سے آئے ہوئے اسقف کو طلب کیا جائے‘‘
زندگی کی بہترین یادوں سے لدا ہواوقت کتنی جلدی گزرجاتا ہے۔یہ سوچتے ہوئے اٹھے سنگ مر مر کی جالیوں کے پر دے کو پکڑ کر دریچے میں کھڑے ہو گئے ۔قیصر کے روکار کے سامنے سارامیدان نوبت کی آوازوں اورمصری سواروں کی زردعباؤں،ہتھیاروں اور گھوڑوں سے چھلک رہا تھا۔نشانوں کے زردوز پھریرے آفتاب کی چمکیلی روشنی میں جگمگا رہے تھے۔ان کے دونوں ابروپیشانی پر چڑھ گئے۔
’’کیا تقی الدین آگیا؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
انہوں نے سوچا۔پھر نیچے اترے۔جاں نثاروں کے سلام قبول کئے ۔باب الداخلہ کی شہ نشین پر بجتی ہوئی نوبت کی شیریں آوازیں رینگ رہی تھیں۔دمشق کے گلابوں سے سارا صحن گلزار تھا۔رات کے محافظ سوار انسیلیں کرتے ،گھوڑوں کو رانوں میں دابے،سنگین جبوترے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔مملوکوں کی کمان میں کردوں اور سلجوتوں کے دستے ان کی جگہ سنبھال رہے تھے۔بادامی چمڑے کے پاپوش پہنے وہ مخملیں سبزے پر ٹہلتے رہے۔پھولوں کی رنگت،قامت اور خوشبو سے محفوظ ہوتے رہے۔اپنے شکاری چیتوں کی آنکھیں سے چشم پوش کھلوائے۔ان کی گردنوں پر تھپکیاں دیں۔عقابوں اور بازوں اور شکروں کے جوڑے ملاخطہ کئے۔محبوب شیرازی کبوتروں کے جوڑے ہاتھ میں لئے۔امیرشکار سے باتیں کر رہے تھے کہ ملک الافضل اور ملک الظاہر طبیب خاص کے ساتھ حاضر ہوئے ۔غلاموں نے سبزے ہی پر کرسیاں لگا دیں۔طبیب نے نبص دیکھ کر حکم لگایا۔
’’خدائے بزرگ و برتر کا شکر ہے۔کہ مزاج عالی روبہ صحت ہے۔لیکن مکمل صحت سے قبل معمولات جانبانی سے اجتناب کیا جائے۔‘‘
سلطان مسکرا دیئے۔نگاہ اٹھائی تو دیکھا تقی الدین آرہا ہے۔ گندمی چہرہ،سیاہ چھوٹی نکیلی داڑھی،اونچا بھاری بدن،سفیدکفتان پر زرد کمر بند میں وہ سرفرازتلوار جو حطین کی فتح پر سلطان نے اس کی کمر باندھی تھی۔طریوش میں عقاب زریں کے پردوں کی کلغی لگی ہوئی کفتان کے دامنوں سے جھانکتے ہوئے طلا کار چرمی موزے پہنے تلے قدم رکھنا قریب آگیا۔تلوار کو بوسہ دے کر غلاف کر لیا اور سر جھکا دیا۔سلطان نے بیٹھے ہی بیٹھے ہاتھ بڑھا کر اس کے بازوپر تھپکی دی۔وہ تن کر کھڑا ہو گیا۔(جاری ہے )

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں