حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 11

May 23, 2018 | 02:18 PM

زید حامد

یرموک کی جنگ چھ دن تک جاری رہی۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک منفرد جنگ تھی کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب مسلمانوں نے قبائلی بنیادوں پر اپنی صف بندی کی، جو کہ ایک انتہائی غیر معمولی بات تھی۔حضرت خالدؓ کی اس حکمت عملی کی نفسیاتی وجہ یہ تھی کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ اس گھمسان کی جنگ میں ہر شخص اپنے قریبی عزیز، رشتے دار یا بھائی کے ساتھ کھڑے ہو کر جنگ کرے کہ جس سے ان کے حوصلے میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ہر قبیلہ اپنی جگہ بہادری اور شجاعت کے الگ جوہر دکھائے تاکہ اسے دوسرے قبیلوں کے آگے ہزیمت نہ اٹھانی پڑے۔

حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جنگی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ اس نفسیاتی حکمت عملی کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان شدیدذہنی دباؤ کا بھی شکار تھے، کیونکہ ڈھائی لاکھ کا لشکر مد مقابل تھا۔ اگرچہ سپہ سالارِ اعلیٰ (Army Chief) ابو عبیدہؓ ہی تھے، لیکن وہ جان چکے تھے کہ اس موقع پر فوج کی کمان خالدؓ ہی کرسکتے ہیں۔ یعنی آج کی اصطلاح میں خالدؓ اس لشکر کے تھیٹر کمانڈر(Theatre Commander) تھے ۔ حضرت خالدؓ نے چالیس ہزار کی فوج کو ایک ایک ہزار کے چالیس دستوں( (Unit میں تقسیم کیا اور ہر دستے کا ایک کمانڈر مقرر کیا۔ ہر اول اور محفوظ اضافی دستے الگ الگ کیے۔ میمنہ(Right Flank)، میسرہ(Left Flank) اور قلب(Center) کو از سر نو ترتیب دیا، فوج کے یہ تینوں اہم حصے گھڑ سوار دستوں پر مشتمل تھے۔ اور پھر ایک ایسی جنگ کی تیاری شروع کردی کہ جو اس سے قبل خود خالدؓ نے بھی نہ لڑی تھی۔
مسلمانوں کی چالیس ہزار فوج میں ایک ہزار کے قریب صحابہ کرامؓ تھے کہ جن میں ایک سو کے لگ بھگ وہ صحابہؓ بھی تھے کہ جو جنگ بدر میں بھی شرکت کرچکے تھے۔جزیرہ نما عرب سے باہر کسی اور جنگ میں بدری صحابہ کرامؓ کی اتنی بڑی تعداد اب تک شامل نہیں ہوئی تھی۔ اس جنگ میں عکرمہؓ بن ابو جہل، کہ جو ابو جہل کے بیٹے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایمان کی دولت سے سرفراز کیا تھا، بھی مسلمان فوج میں کمانڈر کی حیثیت سے متعین تھے۔حضرت ضرارؓ،ابو عبیدہؓ ، خالدؓ ، قیس بن ہبیرہؓ، سعید بن زیدؓ، معاذ بن جبلؓ، عمرو بن العاصؓ، یزید بن ابی سفیانؓ، شرحبیل بن حسنہؓ، غرض یہ کہ اسلام نے اپنے تمام جگر گوشے اس جنگ کیلئے میدان میں بھیج دیئے تھے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو رومی بدلہ لینے کیلئے مدینہ منورہ کو اگلا ہدف بنائیں گے۔
مسلمانوں کے پاس گھڑ سوار فوج کم تھی، تقریباً بارہ ہزار۔ پیادہ فوج زیادہ تھی۔ مسلمان تبھی کامیاب ہوسکتے تھے کہ جب گھڑسوار فوج کو بہت ہی منظم طریقے سے استعمال کیا جاتا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہاں پرایک نئی حکمت عملی اپنائی۔ اس سے پہلے گھڑ سوار فوج کو اس طرح کسی اور جنگ میں استعمال نہیں کیا گیا تھا۔حضرت خالدؓ کی حکمت عملی کی بنیاد گھڑ سوار دستوں کی تیز رفتار حر کت،دشمن فوج کے پہلوؤں پر حملہ کرنا،اپنی پیادہ فوج پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو روکنا اوردشمن کے قلب کو کمزور کرنا تھا۔
رومیوں اور مسلمانوں کے مابین گھمسان کی جنگ ہوئی۔ تیسرے دن حالت یہ تھی کہ رومیوں کے دباؤ کی وجہ سے مسلمان میسرہ، قلب کی جانب سمٹ گیا۔اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آرمینی اور رومی سپاہی بڑی تعداد میں مسلمان لشکر کی پشت میں موجود، مسلمان عورتوں کے خیموں تک پہنچ گئے۔ یہ بہت نازک موقع تھا،کیونکہ اس موقع پر تھوڑا سا مزید دباؤ مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرسکتا تھا۔ شام میں لڑی جانے والی جنگی مہمات میں پہلی مرتبہ مسلمان شکست کے اتنا قریب آئے تھے ،لیکن اللہ کے فضل و کرم سے رومی جرنیل اس موقع سے بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکے اور دشمن کی گھڑ سوار فوج وقت پر اپنی پیادہ فوج کی کمک نہ کرسکی اور نتیجتاً مسلمانوں نے دشمن کے اس حملے کا دباؤ توڑ دیا۔
اس موقع پر ایک اور غیر معمولی واقعہ ہوا۔ مسلمان عورتوں نے اپنے خیموں سے ڈنڈے نکال لیے اور ان مسلمان فوجیوں کو مارنا شروع کردیا کہ جو دشمن کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ رہے تھے۔یوں انہوں نے مجاہدین کو غیرت دلائی کہ جاؤ اور مردوں کی طرح لڑو۔اب فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا تھا۔
عکرمہؓ بن ابو جہل نے زور سے آواز لگائی اور کہا کہ ’’کون ہے کہ جو موت پر میرے ساتھ بیعت کرتا ہے؟‘‘ یعنی حالات اس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ اب جانثاری کا وقت آن پہنچا تھا۔مسلمان فوج کے ۴۰۰ مجاہدین نے عکرمہؓ کی آواز پر لبیک کہا اور پھر نہایت سرفروشی اور جانبازی سے میدان جنگ میں کود پڑے۔ تب تاریخ نے دیکھا کہ جنگ کا پانسہ پلٹنا شروع ہوگیا اور مسلمان کہ جو پسپا ہو رہے تھے، دشمن کو واپس پیچھے دھکیلنے لگے۔اب پہلی مرتبہ جنگ کی بازی مسلمانوں کے حق میں پلٹنے لگی تھی۔
اس موقع پرحضرت خالدؓ نے اپنی فوج کو از سر نو ترتیب دیا اور اپنے گھڑ سوار دستوں کا استعمال شروع کیا۔یوں دشمن کی فوج دباؤ کا شکار ہوگئی۔ دشمن کی گھڑ سوار فوج جب مسلمانوں کو روکنے کیلئے آگے بڑھی، تو مسلمان گھڑ سواروں نے ان کا راستہ روک کر انہیں پیچھے ہٹانا شروع کیا۔ جب دشمن کے گھڑ سوار دستے پیچھے ہٹنے لگے، تو مسلمانوں کی پیادہ فوج آگے بڑھنے لگی اور مسلمان گھڑ سوار دستوں نے دشمن کی پیادہ فوج پر شدید حملے شروع کردیئے۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ان حربوں نے دشمن کو ششدر کرکے رکھ دیا۔ ان کی صفیں ایک ایک کرکے اکھڑناشروع ہوگئیں۔ اس سے ایک دن قبل کچھ اور واقعات بھی ہوچکے تھے۔ مسلمان جنگی شوریٰ میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے غسانی ڈویژن کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا تاکہ مسلمان فوج پر دباؤ کم کیا جاسکے۔ غسانی ڈویژن ساٹھ ہزار عرب عیسائیوں پر مشتمل تھا کہ جو رومیوں کا ساتھ دے رہے تھے اوران کو الگ تعینات کیا گیا تھا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ نے۳۰ مجاہدین کو ساتھ لیا اور مقابلہ کرنے چل دیئے۔جنگی شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ ساٹھ ہزار کے مقابلے میں ۳۰ مجاہدین کم ہیں، آپؓ ۶۰ مجاہدین لے جائیں ! ۶۰ مجاہدین ساٹھ ہزار عیسائیوں کو قتل تو نہ کرسکے، مگر انہوں نے کفار کو نفسیاتی دباؤ کا شکار کردیا کہ جس نے آئندہ دنوں میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
جنگ کے پانچویں دن رومی فوج تھک کر چور ہو چکی تھی اور ان کے جرنیل ہمت ہار چکے تھے۔ اس کا اندازہ مسلمانوں کو اس بات سے ہوا کہ دشمن کے جرنیل نے حضرت ابو عبیدہؓ کو یہ پیغام بھیجا کہ ہم جنگ کو چند دنوں کیلئے روکنا چاہتے ہیں تاکہ امن معاہدے کی شرائط طے کی جاسکیں۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے دشمن کی اس کمزوری کو بھانپ لیا اور صلح کے مشورے کو فوراً رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب اس قضیے کو ختم کرنے میں جلدی کرنی چاہیے، لہذا اب وقت ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اب فیصلہ کن جنگ کا وقت آن پہنچا ہے۔ آپؓ نے اپنے تمام گھڑ سوار دستوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ آٹھ ہزار مسلمان گھڑ سوار ایک صف میں آگئے۔ آپؓ نے پانچ ہزار گھڑ سوار رومیوں کی پشت کی جانب روانہ کردیئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو یہ یقین ہوچلا تھا کہ وہ اگلے دن اس جنگ کو پایہء تکمیل تک پہنچادیں گے اور رومی یقینی طور پر فرار کا راستہ اختیار کریں گے۔ ان کے تین اطراف میں دریا تھا، اور پشت پر صرف ایک طرف خشکی کا راستہ تھا کہ جہاں پر اب حضرت خالد بن ولیدؓ نے حضرت ضرارؓ کو پانچ ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ تعینات کردیا تھا، تاکہ دشمن کے فرار کے تمام راستے مسدود کردیئے جائیں۔
جنگ کے شروع ہونے سے قبل ہی اس تعیناتی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے اندازے کس قدر صحیح اور مکمل تھے۔ پھر وہی ہوا کہ جس کی توقع تھی۔ چھٹے دن جب ’’اللہ کی تلوار‘‘ چلنا شروع ہوئی تو رومی اس کے حملے کو سہہ نہ پائے۔پہلی مرتبہ ساری رات لڑائی جاری رہی۔آنے والے طویل عرصے تک مسلمانوں میں اس خوفناک رات کے قصے عام رہے۔ ہزاروں کی تعداد میں دشمن کے سپاہی قتل ہوئے۔ حتٰی کہ انکا سپہ سالار بھی اس جنگ میں مارا گیا۔حضرت خالد بن ولیدؓ اور تمام مسلمانوں نے بے دریغ دشمنوں کا قتل عام کیا اور رومی فوج کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ اب عام پسپائی کا آغاز ہوچکا تھا۔ جنہوں نے بھی فرار ہونے کی کوشش کی ان کیلئے حضرت ضرارؓ اپنے پانچ ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے بھی فرار ہونے والے سپاہیوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کردیا۔
حضرت ابو عبیدہؓ نے جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو جیت کی مبارکباد دی تو انہوں نے اس فتح کو’’فتح الفتوح‘‘ یعنی فتوحات کی فتح کہا۔ یقیناً یہ سچ تھا کیونکہ جب سے مسلمانوں نے اپنی سرحدوں سے باہر جنگی مہمات شروع کی تھیں، تب سے لیکر اب تک، مسلمانوں نے اتنی خونریز جنگ پہلے کبھی نہ لڑی تھی۔اگرعکرمہؓ بن ابو جہل کی پکار پرچارسو مجاہدین موت پر بیعت نہ کرتے تو شاید مسلمانوں کو اتنی فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہوتی۔حضرت عکرمہؓ اور ان کے بیٹے شدید زخمی تھے اور بعد میں ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بھی شہید ہو گئے۔(جاری ہے )

حضرت خالدبن ولیدؓ۔اسلام کے عظیم سپہ سالار کے حالات زندگی... آخری قسط  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں