سیمیں بدن، غْنچہ دہن، شیریں سخن، سرو قد، طیبہ نے انتہائی سنجیدگی سے کہا ”سموگ اور شْترِ بے مہار سوشل میڈیا حضرت بُلھے شاہ کی بددعا کا نتیجہ ہے“۔ یہ سننا تھا کہ کتنی ہی جبینیں شِکن آلود ہو گئیں۔میرا بھی ہاسا نکل گیا اگرچہ مجھے شاعر کا قصہ یاد تھا۔ ہمارے شاعر ایک گرلز کالج میں مدعو تھے،ایک دوشیزہ نے ان کا ایک مشہورِ زمانہ شعر پڑھا،تشریح بھی کر دی۔مکمل غزل سنانے کی فرمائش کی،شاعر صاحب سچے آدمی تھے۔ٹَھرکی بھی تھے، بلکہ سچے ٹھرکی تھے۔انتہائی لگاوٹ بھرے لہجے میں بولے ”شعر لکھتے ہوئے آپ کا بیان کردہ مفہوم، میرے تخیل کی پہنچ سے بہت دور تھا لیکن اب میرے شعر کی شانِ نزول بعینہ وہی ہے جو آپ کے لبوں سے نکلی۔”اس محفل کا دستور مختلف تھا۔کوئی حسین ہو یا ذہین ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق تھا، بات کتنی ہی تلخ ہو، کہنے والا کہتا تھا، مخاطب سہتا تھا۔ دوستوں کی بزم تھی،سب کی پرانی راہ و رسم تھی،ہر کوئی شاعر تھا، حا لات حا ضرہ کا ماہر تھا، تاریخ دان تھا، حق گو انسان تھا۔ روایت کے عین مطابق سب نے اپنے اپنے خیا لات کا اظہار کیا۔ ایک مہربان نے تو حد کر دی۔یہاں تک کہہ دیا:۔
وجہ سموگ بد دْعاء ولیِ قصور ہے
محترمہ! یہ فقط آپ کی نظر کا فتور ہے
طیبہ محفل کی جان تھی، اس کی اپنی شان تھی۔اپنے لفظوں کی آبرو رکھنااس کی پہچان تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے تنقید کو خندہ پیشانی سے سنا۔ متانت سے بات جاری رکھی۔بلھے شاہ نے فرمایا تھا۔”چل بلھیا! چل اوتھے چلیے جتھے سارے انھے، ناں کوئی ساڈی ذات پچھانے ناں کوئی سانوں منے“…… سموگ کے باعث آج کل حدِ نگاہ صفر ہے۔ہر کوئی اندھا ہی تو ہوا ہوا ہے۔ سماجی رابطہ کا کوئی بھی ذریعہ ہو، بھلے ایپلی کیشن ہو یا ویب سائٹ، عمومی طور پر استعمال کرنے والے کی شناخت جعلی ہوتی ہے۔ شرْفا کی عزت اچھالی جاتی ہے۔سوشل میڈیا بھی کسی حد تک ڈیجیٹل سموگ کا ہی دوسرا نام ہے۔ بلھے شاہ کے دربار سے تھوڑے ہی فاصلے پر رہنے والی طیبہ کے دل اور بلھے شاہ کے کلام میں کبھی اتنا فاصلہ بھی نہیں رہا، جتنا دربار اور گھر میں ہے۔ خاتون کوبلھے شاہ کا تمام کلام حفظ ہے۔ بلھے شاہ سے عشق ہے۔ بہت سے مردوں کو یہی بات بلھے شاہ کا کلام پڑھنے پر مجبور کرتی ہے تو بہت سے مرد اسی وجہ سے بلھے شاہ اور کلامِ بلھے شاہ کو رقیب سمجھتے ہیں۔اہلیان قصور کے فضائل،وسائل اور مسائل ہماری آئندہ تحریروں کا بھی مو ضوع ہوں گے۔آج ہمارا موضوعِ بحث فقط اتنا ہے کہ سموگ کس کا قصور ہے۔ میانوالی کے مشہور ترین گلوکار تمام عمر پوچھتے رہے۔ ہم تم پہ مر مٹے ہیں یہ کس کا قصور ہے۔ آج تمام قوم پوچھ رہی ہے سموگ کی وجہ سے ہم مر مٹے ہیں یہ کس کا قصور ہے۔سموگ پڑوسی ملک کی مہربانی ہے، صنعتی ممالک کی کارستانی ہے؟ بیوقوف دوستوں کی نادانی ہے؟ ہماری اپنی پیدا کردہ پریشانی ہے؟ سموگ کی حقیقت کس نے جانی ہے؟سموگ کی وجوہات اور نقصانات سے آگاہی کے لئے چند دن پہلے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سوشل میڈیا کے ایک بہت بڑے دانشور کو بلایا گیا، جو بلاگر وی لاگر، یو ٹیوبر اور پتہ نہیں کیا کیا تھے، چھوٹی چھوٹی ویڈیوز اپ لوڈ کرکے اپنا ذاتی چینل چلاتے تھے،بیٹھ کر کھاتے تھے، بہت کماتے تھے، گیان لٹاتے تھے وہ بھی منوں اور ٹنوں کے حساب سے اور ہر موضوع پر۔ عوام سے فیس ٹو فیس یہ ان کا پہلا رابطہ تھا۔ تین دن کیلئے انہیں مدعو کیا گیا۔سٹی ہال میں لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ہمارے ڈیجیٹل دانشور کئی گھنٹے اپنا تعارف کرواتے رہے،اپنی کامیابیاں اور ملک و قوم کے لئے اپنی خدمات گنواتے رہے، رات گئے انہیں خیال آیا کہ آج ان کا موضوع سموگ تھا بآواز بلند پوچھا، خواتین و حضرات آپ سموگ کے بارے میں جانتے ہیں؟ ایک طالب علم نے انتہائی ادب سے کہا، جی جانتے ہیں،نہایت پرمسرت لہجے میں کہنے لگے میں جانتا ہوں آپ قا بل اور باشعور لوگ ہیں میں آپ کا وقت کیوں ضائع کروں۔ اپنے پانچ ستاروں والے ہوٹل تشریف لے گئے ذہنی مشقت نے شدید تھکا دیا تھا پھر بھی ملک و قوم کی محبت غالب آ گئی۔ گھوڑے تھے نہیں سو کئی ویڈیوز بیچ کر سوئے۔ دوسرے دن پھر تشریف لے گئے، اپنے کھکھ پتی سے لکھ پتی بننے کی کہانی سنائی اور بار بار سنائی،ہر بار اپنی عظمت پہلے سے سوا بتائی، جب گھڑیال نے رات کے دو بجنے کی دی دھائی اور پہلی صف نے لی لمبی جمائی تو عقل اک لحظہ ٹھکانے آئی، انتہائی دانشمندانہ گفتگو فرمائی، آپ سموگ کے بارے میں جانتے ہیں۔جواب ملا، جی کچھ نہیں جانتے، غصے اور صدمے سے پاگل ہو گئے، کیسے غیرذمہ دار اور لاپرواہ ہیں آپ لوگ، قومی مسئلہ اور بے حسی، میری باتوں کا آپ پر کیا اثر ہو گا، آپ رہنے دیں سموگ کی بابت گفتگو۔ ہوٹل روانہ ہوئے،غصے اور صدمے کی کیفیت میں معدے کا حال عجیب ہوجاتا تھا۔کچھ نہ کچھ کھانے کو مانگتا رہتا تھا، خود پر جبر کی انتہا کر دی۔اذان فجر سنتے ہی سو گئے۔تیسرا دن آگیا، شام کو وقت مقررہ پر سٹی ہال پہنچ گئے اپنادور طالب علمی یاد آیا، لوگوں کو اپنے بچپن کا ہر قصہ سنایا، اپنی ہمہ جہت شخصیت کے صرف ایک پہلو سے روشناس کروایا، کہ پھر وقت کی تنگی نے آستایا، گھڑیال نے دو کا گھنٹہ بجایا،سموگ کا خیال آیا، کل والا سوال دہرایا، آپ سموگ کے بارے میں جانتے ہیں، آج کا جواب پہلے دو دنوں سے مختلف تھاکچھ جانتے ہیں کچھ نہیں جانتے۔ گیان نے شور مچایا،کلمہ حق زبان پہ آیا، کچھ یوں فرمایا،
باہمی رابطے بڑھائیں جو جانتے ہیں وہ دوسروں کو بھی بتائیں،وطن کاقرض چکائیں،میرا چینل دیکھتے جائیں،ویورز کی تعداد بڑھائیں، یہ آپ کا انسانی فریضہ ہے اور قومی فریضہ بھی۔ غریب عوام کچھ سمجھ نہ پائی کہ سموگ اور سوشل میڈیا کا پیدا کردہ فوگ کس کا قصور ہے۔ قصور شاید کسی کا بھی نہیں اور شاید ہم سب کا ہے۔ اسلام مکمل ترین دین ہے اور اپنے پیروکاروں سے مکمل پاکیزگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ آلودگی اور بے ہودگی غیر اسلامی افعال ہیں۔ آلودگی چاہے وہ ماحولیاتی ہو یامعاشرتی، اخلاقی ہو یا تعلیمی سیاسی ہو یا معاشی، بیہودگی بھلے اخلاقی ہو یا جنسی قوموں کے لئے زہر ہے، قہر ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف ہوا اور حیا کو پسند کرتے ہیں۔ ماحول بھی صاف رکھنا چاہیے اور خیالات بھی، سوشل میڈیا جھوٹ کا گڑھ ہے تو سموگ کئی بیماریوں کی جڑ۔ آئیے! سموگ اور ڈیجیٹل فوگ سے قوم کی نجات کے لئے اپنا اپنا فرض ادا کریں۔ ہمارے شاعر نے دنیا کے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے بجا فرمایا۔
اس قدر بڑھنے لگی ہے ہر طرف آلودگی
سانس لینا آدمی کا مسئلہ ہو جائے گا
سر اٹھاتے ہیں یہاں بھی عصر حاضر کے یزید
کل یہ خطہ بھی محاذ کربلا ہو جائے گا