سیاست ایک نظریے کا نام ہوتا ہے اور ہر سیاستدان کو کسی نہ کسی نظریے کا پابند ہونا چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے کم و بیش تمام سیاستدان اس صفت سے عاری ہیں۔ وہ ہر اس سیاسی جماعت کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں جس کے اقتدار میں آنے کے امکانات واضح اور روشن ہوتے ہیں۔ پھر سیاستدانوں کے ضمیر جاگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سیاسی پرندے ایک غول سے دوسرے کی طرف اڑان بھرتے ہیں۔ منڈیاں سجتی ہیں۔ منھ مانگی قیمت وصول کر کے ضمیر بیچے جاتے ہیں، جسے سیاستدان ضمیر جاگنے کا نام دیتے ہیں۔مشتری جماعت اسے ضمیر کی بیداری کا نام دیتی ہے جبکہ اس کی سابقہ پارٹی اسے ضمیر فروشی کہتی ہے۔ جس کا ضمیر بیدار ہوتا ہے یا بکتا ہے وہ اسے وسیع تر عوامی مفاد کا نام دیتا ہے۔حالانکہ یہ وسیع تر ذاتی مفاد ہوتا ہے۔ ہم اپنی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں کہ ہمارے موجودہ سیاستدانوں میں سے کس کا ضمیر کب کب جاگا؟ جس کے نتیجے میں انہوں نے کس طرح اپنی سابقہ سیاسی جماعت پر تنقید کے تیر برسائے۔
ہم اپنی بات کا آغازجناب ذوالفقار علی بھٹو شہید سے کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز ایک ملٹری ڈکٹیٹر ایوب خان صاحب کی سیاسی جماعت مسلم لیگ سے کیا، وہ ان کے وزیر خارجہ بھی رہے۔ وہ خان صاحب کے اتنے قریب تھے کہ انہیں ڈیڈی کہا کرتے تھے، لیکن جب ڈیدی سے معاملات بگڑے تو اپنی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی تشکیل دے دی۔ منھ بولے ڈیڈی کے خلاف ایک بھرپور تحریک چلائی اورخان صاحب کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سن ستر کی دہائی میں جناب اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال سے کیا۔ پھر 1981ء میں جناب جنرل ضیاء الحق، ایک ملٹری ڈکٹیٹر، کی نظر التفات ان پر پڑی تو یہ وزیر خزانہ بنا دیے گئے۔ بعد میں انہوں نے 1988ء میں اپنی نئی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ن) بنالی۔جہاں تک شیخ رشید احمد کا تعلق ہے انہوں نے1985ء میں جناب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیااور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے،پھر 1993 ء میں پاکستان مسلم لیگ(ن) شامل ہو گئے اور مختلف محکمہ جات کے وزیر رہے۔ جب جنرل پرویز مشرف صاحب نے ملک پر شب خون مارا تو وہ جنرل مشرف کی سرپرستی میں بنائی گئی مسلم لیگ(ق) میں شامل ہو گئے اور وزیر بنا دیے گئے۔2008ء میں انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی عوامی مسلم لیگ بنا ڈالی۔2018ء میں وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بن گئے اور وزیر بن کر اپنی سابقہ سیاسی جماعتوں پر وشنام طرازیوں کے عمل کا حصہ گئے۔
جناب عمر ایوب خان ،جو ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان کے پوتے ہیں،آج کل پاکستان تحریک انصاف کے چوٹی کے قائدین میں شامل ہیں،نے اپنی سیاست کا آغاز 1993ء میں پاکستان مسلم لیگ(ن) سے کیا۔2001ء میں وہ مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے۔ انتخابات جیتنے کے بعد وفاقی وزارت کے مزے لوٹتے رہے۔ بعد میں 2012ء میں پھر سے مسلم لیگ(ن) میں آ گئے اور 2018ء تک اسی جماعت میں رہے۔ جب اس جماعت سے اقتدار چھننے کے وقت قریب آیا تو موصوف پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ اب تک اسی جماعت کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں وہ مختلف محکموں کے وزیر رہے۔ آج کل وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز ہیں۔جہاں تک ضلع جہلم کے جناب فواد چودھری کا تعلق ہے وہ 2002ء میں بحیثیت آزاد امیداوار ایم پی اے منتخب ہوئے۔ بعد میں انہوں نے پاکستان مسلم لیگ(ق) میں شمولیت اختیار کر لی۔2009ء میں فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے سپوکس پرسن بن گئے۔ جب انہیں نظر آیا کہ آئندہ حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کو ملنے کے امکانات ہیں تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ پہلے وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی مقرر ہو ئے۔ بعد میں وفاقی وزیر بھی بنا دیے گئے، انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور مختلف وفاقی وزارتوں پر قابض رہنے کے بعد، کچھ وقت خاموشی اختیار کی اور اب پھرسے پی ٹی آئی میں واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں۔جناب بیرسٹر گوہر علی خان، جو آج کل پی ٹی آئی کے چیئرمین ہیں،نے اپنی سیاست کا آغاز2004ء میں پاکستان پیپلز پارٹی سے کیا۔2008ء میں اسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا لیکن ہار گئے۔ 2022ء میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں 2023ء میں جناب عمران خان کی نااہلی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی مقرر کر دیا گیا اور ابھی تک وہ اس عہدہ پر فائز ہیں۔
اگر ہم گجرات کے چودھری برادران کا ذکر نہ کریں تو شاید ہماری بات مکمل نہ ہو۔چودھری پرویز الٰہی جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں 1983ء میں چیئرمین ضلع کونسل بنے۔پھر انہی کے دور میں پنجاب کے وزیر بلدیات رہے۔ پھر پاکستان مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے۔ 1997ء میں اسی جماعت سے اسپیکر پنجاب اسمبلی بنے۔ جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر شب خون مارا تو وہ مسلم لیگ(ن) کو چھوڑ کر جنرل صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے۔ ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ق) کی بنیاد رکھی۔ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئے اور بیان داغا کہ اگر جنرل پرویز مشرف کو سو دفعہ بھی وردی میں صدر منتخب کرنا پڑا تو کریں گے۔ 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز رہے۔جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تواس سے سیاسی الحاق کرتے ہوئے پہلے صوبہ پنجاب کے اسپیکر اور بعد میں وزیر اعلیٰ بن گئے۔ 2023ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور ابھی تک اسی پارٹی میں ہیں۔آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کا نظریہ کیا ہے؟ ان کی ترجیحات کیا ہیں؟ یہ کس پارٹی کو پسند کرتے ہیں؟ چند استثنائی شخصیتوں کے سوا ہمارے سیاستدانوں کی کوئی پارٹی نہیں ہوتی۔ ان کی پارٹی ہمیشہ حکومتی پارٹی ہوتی ہے۔ انہیں فصلی بٹیرے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔وہ ہمہ وقت اقتدار کی راہداریوں کی طرف اڑان بھرنے کو تیار رہتے ہیں۔اقتدار کی خاطر وہ فوجی ڈکٹیٹروں کے حاشیہ نشین بن جاتے ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد انہیں برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں۔اقتدار کے بغیر وہ ایسے ہوتے ہیں جیسے مچھلی پانی سے باہر ہو۔ کوئی ان سے پوچھے کہ ایم این اے ایز اور ایم پی ایز کا ڈیویلپمنٹ کے کاموں کے ٹھیکے دینے دلانے سے کیا کام ہے؟ یہ کام تو مقامی حکومتوں کا ہوتا ہے۔ انہیں تو عوام قانون سازی کے لیے اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔لیکن ان کا سارا زور فنڈز لینے پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب شاید کسی بھی سیاستدان کے پاس نہیں ہے۔