زیر نظر مضمون کا تعلق اللہ اور اس کے رسولﷺ کو ایذا رسانی سے ہے اور اس پر مسلمانوں کے رد عمل اور غیرتِ ایمانی کا امتحان مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کن انسانی افعال و کردار کو پسند نہیں فرماتا اور ناراض ہوتا ہے، ان میں سے سب سے بڑی گستاخی ”شرک“ ہے، اس کے بعد اس کے احکامات اور اوامر ونواہی کی خلاف ورزی۔ اس کی مقدس کتاب کی بے حرمتی ہے اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ کی شانِ اقدس میں ہر طرح کی بے ادبی اور گستاخی شامل ہے۔ جہاں تک قرآنِ کریم کی بے حرمتی کا تعلق ہے، اس بارے اللہ تعالیٰ اپنے قانون مہلت کے مطابق فوری گرفت نہیں کرتا، بلکہ مقررہ وقت تک مہلت دیتا ہے،جیسا کہ سورة الکہف نمبر18آیت نمبر57میں فرمایا گیا ہے:” اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے، جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ ان سے منہ پھیرلے اور اس بُرے انجام کو بھول جائے،جس کا سروسامان اس نے اپنے لئے خود اپنے ہاتھوں کیا: ”قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔جیسا کہ سورة الحجر نمبر15کی آیت نمبر9سے ثابت ہے:” بیشک ہم ہی نے اتارا ہے ، اس ذکر(قرآن مجید) کو اور یقینا ً ہم ہی اس کے محافظ ہیں“۔ حفاظت کئی طرح کی ہے،یعنی اس کے متن میں کسی طرح کی تبدیلی، تحریف، زیر، زبر اور پیش میں تبدیلی، جس سے معنی بدل جائیں۔ دوسرے یہ کہ اوراق کی بے ادبی، کسی بھی رنگ میں کوئی کرے تو ہر مسلمان اپنی جانوں پر کھیل کر مدافعت کرے گا، مگر اس ضمن میں حضرت عبدالعزیز دیاغ مغربی نے اپنی کتاب خزینہ معارف اردو ترجمہ ”ابریز“.... علم لدنی کی لاجواب کتاب میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اور اوراق جن کی بے حرمتی کی جاتی ہے، ان سے جبرائیل علیہ السلام پہلے ہی تاثیر اٹھا لیتے ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ اس نظام کائنات کو زیرو زبر کردے۔دراصل اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی غیرت اور حمیت کا امتحان لیتا ہے۔چونکہ وہ اپنے بندوں کی نیت، اعمال و کردار، دلوں کے بھید سے بخوبی آگاہ ہے اور ساتھ ہی دو فرشتے کراماً کا تبین ہر انسان کے ساتھ مامور ہیں جو اس کی ہسٹری شیٹ لکھتے رہتے ہیں، جس کی جزا اور سزا کا فیصلہ محشر کے دن ہوگا۔ اس لئے کوئی شخض اس گمان میں نہ رہے کہ احکاماتِ الٰہیہ اور ارشادات نبویہ سے جتنی چاہے اس دنیامیں سرتابی اور روگردانی کرکے قیامت کے دن کئی طرح کے جھوٹ اور مکرو فریب کے ذریعے بچ جائے گا۔وہاں اس کے اعضاء،حتیٰ کہ جلد بھی اس کے تمام راز افشا کردیں گے۔
مکی زندگی میں مشکلات اور طرح کی تھیں اور پھر وہ لوگ حضور علیہ الصلوٰة کے رشتہ دار اور ہم قبیلہ تھے، مگر مدنی زندگی میں آپ کو کئی دوسری طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔ جن میں یہودی اور منافقین تھے۔مخالفت میں سب سے نمایاں کردار عبداللہ بن ابی بن سلول کا تھا۔یہودی بھی سخت دشمن تھے۔معاہدوں کی خلاف ورزی ان کا شیوہ تھا۔ منافقین کا ایک اور گروہ تھا جو نہ اسلام کی مخالف کرتے اور نہ یہودیوں کا ساتھ چھوڑتے۔ان لوگوں نے حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو سخت پریشان کئے رکھا۔محولا بالا قرآنی آیاتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بذاتِ خود ایسے لوگوں کو عذاب دینے کا ذکر فرما رہے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کریم کو کسی نہ کسی طرح سے دکھ، رنج، غم پہنچاتے ہیں۔اصولی بات ہے ،اگر کوئی شخص احکاماتِ الہٰیہ سے بغاوت کرتا ہے اور قرآن کریم کی بے حرمتی کرتا ہے اور اس کے رسول کی ذات اقدس کی دل آزاری اور ایذا رسانی کرتا ہے تو اس کا مواخذہ کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔تاریخ اسلام میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں۔خوفِ طوالت کی وجہ سے فی الحال....ایک یہودی کعب بن اشرف کا واقعہ یہاں بیان کیا جاتا ہے.... (زرقانی ج (10)2بخاری ج 2(526باب482) (مسلم شریف110) کعب بن اشرف کا قتل:یہودیوں میں کعب بن اشرف بہت ہی دولت مند تھا۔یہودی علماءاور یہود کے مذہبی پیشواﺅں کو اپنے خزانے سے تنخواہ دیتا تھا۔دولت کے ساتھ شاعری میں بھی بہت باکمال تھا،جس کی وجہ سے نہ صرف یہودیوں، بلکہ تمام قبائل عرب پر اس کا ایک خاص اثر تھا۔اس کو حضور اکرمﷺ سے سخت عداوت تھی۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح اور سرداران قریش کے قتل ہو جانے سے اس کو انتہائی رنج و صدمہ ہوا،چنانچہ یہ قریش کی تعزیت کے لئے مکہ گیا اور کفار قریش کا، جو بدر میں مقتول ہوئے تھے، ایسا پُردرد مرثیہ لکھا کہ جس کو سن کر سامعین کے مجمع میں ماتم برپا ہوجاتا تھا۔اس مرثیہ کو یہ شخص قریش کو سنا سنا کر خود بھی زار زار روتا تھا اور سامعین کو بھی رلاتا تھا۔مکہ میں ابوسفیان سے ملا اور اس کو مسلمانوں سے جنگ بدر کا بدلہ لینے پر ابھارا، بلکہ ابوسفیان کو لے کر حرم میں آیا اور کفار مکہ کے ساتھ خود بھی کعبہ کا غلاف پکڑ کر عہد کیا کہ مسلمانوں سے بدر کا ضرور انتقام لیں گے۔پھر مکہ سے مدینہ لوٹ کر آیا تو حضور اکرمﷺ کی ہجو لکھ کر شان اقدس میں طرح طرح کی گستاخیاں اور بے ادبیاں کرنے لگا، اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ آپ کو چپکے سے قتل کرا دینے کا قصد کیا۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ایک یہودی کعب بن اشرف کے متعلق فرمایا.... کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دی تھی۔حضرت محمد بن مسلمہ کھڑے ہو کر عرض گزار ہوئے، یا رسول اللہ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ اسے قتل کردیا جائے؟فرمایا ہاں۔عرض گزارہوئے کہ مجھے یہ اجازت فرما دیجئے کہ ضرورت کے مطابق مناسب یا نامناسب بات کہہ سکوں ؟فرمایا، جو چاہو کہو۔پس محمد بن مسلمہ نے اس (کعب) کے پاس جا کر کہاکہ یہ شخص (رسول خدا) تو ہم کو بہت تنگ کرتا ہے اور ہم سے زکوٰة مانگتا ہے،حالانکہ ہم خود تنگ دست ہیں۔مَیں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ ہمیں قرض ہی دلوا دیجئے۔وہ کہنے لگا کہ” یہ شخص ابھی تو تمہیں اور بھی تنگ کرے گا“۔انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کی پیروی جو کر چکے تو اب اچانک چھوڑ دینا مناسب نہیں، لیکن موقع کی تلاش میں ہیں،دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ایک دو وسق کھجوریں قرض دے دیجئے۔سفیان کا بیان ہے کہ عمروبن دینار نے کئی مرتبہ ہم سے یہ حدیث بیان کی،لیکن ایک دو وسق کھجور کا ذکر نہیں کیا۔جب مَیں نے ان سے کہا کہ اس حدیث میں ایک دو وسق کجھوروں کاذکر ہے تو کہنے لگے کہ میرے خیال میں اتنی کھجوروں کا ذکر بھی ہے۔
پس کعب نے کہا کہ کچھ رہن رکھو۔انہوں نے کہا،آپ کیا چیز چاہتے ہیں! جواب دیا کہ اپنی عورتیں گروی رکھ دو۔انہوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کے پاس عورتیں کس طرح گروی رکھیں،حالانکہ سارے عرب میں خوبصورت ترین آپ لوگ ہیں۔اس نے کہا تو اپنے بیٹے گروی رکھ دو۔انہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے بیٹے کس طرح گروی رکھیں ، ایسا کرنے سے ہر کوئی گالی دے سکتا ہے کہ تم ایک دو وسق کھجوروں کے بدلے گروی رکھے گئے تھے،لہٰذا ایسا کرنے سے تو ہمیں شرم آئے گی، ہاں ہم اپنے ہتھیار گروی رکھ سکتے ہیں۔سفیان نے لامتہ کا مطلب السلاح بتایا ہے۔پس انہوں نے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔پھر یہ رات کے وقت گئے اور ان کے ساتھ کعب کا رضاعی بھائی ابونائلہ بھی تھا۔ اس نے انہیں قلعہ میں بلا لیا اور ان کے پاس نیچے آنے لگا۔
اس کی بیوی کہنے لگی کہ اس وقت آپ کہاں جاتے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ محمد بن مسلمہ اور اپنے بھائی ابونائلہ سے ملنے۔ عمربن دینار کے سوا دوسرے حضرات نے کہا کہ عورت نے یہ بھی کہا کہ اس آواز سے تو خون ٹپک رہا ہے۔کہنے لگا کہ محمد بن مسلمہ گویا میرا حقیقی اور ابونائلہ رضائی بھائی ہے اور شریف آدمی کو رات کے وقت اگر نیزہ مارنے کے لئے بھی بلایا جائے تو اسے جانا چاہیے۔محمد بن مسلمہ کے ساتھ دو آدمی بھی تھے۔ سفیان سے پوچھا گیا کہ عمروبن دینار نے ان کے نام بتائے؟کہا، کسی کا نام لیا تو تھا، لیکن یہی فرمایا کہ ان کے ساتھ دو اور آدمی بھی تھے۔ دوسرے حضرات نے ان کے نام :(1) ابومیس بن جبرا(2) حارث بن اوس(3)غبار بن بشران بتائے ہیں۔عمرو کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ میں اس کے بال پکڑکر سونگھوں گا،جب آپ دیکھیں کہ مَیں نے اسے سر کے بالوں سے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا ہے تو تم اس کا کام تمام کر دینا۔ایک بار عمرو بن دینار نے یہ بھی کہا کہ مَیں تمہیں بھی سنگھاﺅں گا۔پس وہ چادر اوڑھے ہوئے نیچے اترا اور اس سے بڑی عمدہ خوشبو آ رہی تھی۔
محمد بن مسلمہ کہنے لگے کہ مَیں نے آج تک اتنی عمدہ خوشبو نہیں سونگھی ۔عمرو کے علاوہ دوسرے حضرات کہتے ہیں کہ کعب نے کہا:میرے پاس ایسی عورتیں ہیں ، جو عرب میں سب سے زیادہ عطر کا استعمال کرتی ہیں۔ عمرو کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا:کیا میں آپ کاسرسونگھ سکتا ہوں! جواب دیا، ہاں ۔پس محمد بن مسلمہ نے ان کا سرسونگھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی سنگھایا۔پھر کہنے لگے ، کیا مجھے دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے جواب دیا، ہاں۔جب انہوں نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو دوسرے حضرات نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا، پھر نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کردیا۔
کعب بن اشرف کے بعد دوسرے گستاخ یہودی ابو رافع بن ابو حقیقی کے قتل کا واقعہ ہے جو خیبر میں رہتا تھا۔بعض کے نزدیک سرزمین حجاز میں اس کا اپنا قلعہ واقع تھا۔ابو رافع ہمیشہ رسول اکرمﷺ کو ایذا پہنچاتا اور دشمنوں کی مدد کرتا۔رسول اکرمﷺ نے حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کی سرکردگی میں چند انصار اسے قتل کرنے کے لئے بھیجے تھے۔یہ کیسے قتل ہوا؟ حضرت عبداللہؓ نے جس جرا¿ت اور بہادری سے اسے قتل کیا، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔(ختم شد) ٭