سکھ پال پر حملہ
محمود غزنوی، ایلک خاں اور کدار خاں کے تعاقب کی تیاریاں کر رہا تھا کہ 1007ءمیں بھاٹنہ کے حاکم سکھ پال نے بغاوت کر دی۔ تمام مسلمان افسروں کو اپنی ریاست سے نکال دیا اور اسلام سے منحرف ہوگیا۔محمود غزنوی نے اس پر حملہ کیا۔پہلے چند جاگیرداروں کو بھیجا جنہوں نے اسے گرفتار کرلیا۔ چار لاکھ دینار جرمانہ اس سے وصول کیا گیا۔بھر بقیہ زندگی وہ سلطان محمود غزنوی کی جیل میں پڑا رہا۔ فرشتہ نے یہاں سکھ پال کی بجائے اب سارا لکھا ہے۔
آنند پال سے جنگ
سکھ پال کا انجام دیکھ کر آنند پال نے اپنی سلطنت کے لئے بھی خطرہ محسوس کیا۔ اب اس نے پورے ہندوستان کے بڑے راجوں کی فوجوں کو یکجا کرکے جنگ کرنے کا منصوبہ بنایا چنانچہ اُجین‘گوالیار‘کالنجر‘قنوج‘دہلی اور اجمیر کے راجوں نے زیادہ سے زیادہ فوجیں آنند پال کی ماتحتی میں دے دیں۔ محمود غزنوی دریائے سندھ عبور کرکے چھچھ کے علاقے میں حضرو کے قریب ایک میدان میں خیمہ زن تھا۔ ان کے سامنے ہی آنند پال کی فوجیں بھی صف آرا تھیں۔ چالیس روز تک یہ دونوں اسی طرح آمنے سامنے پڑے رہے۔ آنند پال کا لشکر روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ حتیٰ کہ پنجاب کے عوام.....مرد اور عورتیں سب .....اس جنگ میں شریک ہونے گلے۔
سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 15 پرھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سلطان محمود غزنوی نے اپنی فوف کے اردگرد خندق کھدوالی۔ جنگ کا آغاز محمود غزنوی نے کیا لیکن تیس ہزار گکھڑ جو ننگے پیر تھے.....یعنی فوجی نہیںتھے بلکہ عام کسان تھے‘وہ سندھ کے لوہانوں جیسی حالت میں تھے۔ خندق پار کرکے ترک فوجوں کے اندر داخل ہوگئے اور اپنے نیزوں بھالوں‘تیروں اور تلواروں سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ اس حملے میں تین ہزار مسلمان فوجی مارے گئے۔ محمود غزنوی نے گھبرا کر واپسی کا ارادہ کیا کہ اچانک نفت(مٹی کے تیل)سے بنایا گیاایک گوالہ پھٹنے سے آنند پال کا ہاتھی ڈر گیا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ ہندو لشکری سمجھے بادشاہ ڈر کر بھاگ رہا ہے‘یوں ان کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی تو ترکوں‘افغانوں اور خلیجیوں نے تعاقب کرکے آٹھ ہزار افراد کو قتل کیا اور یہ جنگ بھی جیت لی۔ اس جنگ کے لئے سلطان محمود غزنوی‘ غزنی سے 31دسمبر 1008ءکو روانہ ہوا تھا۔ لٰہذا یہ جنگ تقریباً مارچ 1009ءمیں ہوئی اور جون 1009ءمیں محمود غزنوی واپس غزنی چلا گیا۔ اس جنگ میں تیس ہاتھی اور بے شمار قیمتی مال و اسباب محمود غزنوی کے ہاتھ آیا جو وہ ساتھ لے گیا۔ لیکن آنند پال اور اس کی فوجیں ابھی باقی تھیں۔
نگر کوٹ پر حملہ
نگر کوٹ اس جگہ تھا جہاں اب کانگڑہ ہے‘جوکہ بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش میں ہے۔ یہاں پہاڑ کی چوٹی پر ایک قلعہ تھا جسے قلعہ بھیم کہتے تھے۔ اسے راجہ بھیم نے بنایا تھا۔ یہ قلعہ دراصل ایک مندر تھا‘جسے ہندو لوگ مورتیوں کا گڑھ کہتے تھے۔ قلعے میں فوج نام کی کوئی چیز نہیںہوتی تھی‘صرف برہمن پجاری تھے۔اس کی دولت کی شہرت دور دور تک تھی۔ اب سلطان محمود غزنوی نے اس پر حملہ کیا۔ تین دن کے محاصرے کے بعد پجاریوں نے قلعہ نما مندر کے دروازے کھول دیئے۔ یہاں سے محمود غزنوی کو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کے برابر دولت ملی یعنی سات لاکھ سونے کی اشرفیاں‘سات سو من سونے اور چاندی کے اوزار برتن دو من خالص سونا‘ دو ہزار من خالص چاندی اور بیس من جواہرات‘محمود غزنوی نے غزنی جاکر شہر سے باہر ایک مکان بنایا۔ اس میں سونے اور چاندی کے تخت بچھائے وہاں اس دولت کی عوامی بمائش لگائی‘جو تین دن جاری رہی۔ تمام رعایا‘کیا شہری اور کیا دیہاتی‘اس نمائش کو دیکھنے کے لئے جوق در جوق آتے رہے۔“اب دریائے سندھ سے لے کر نگر کوٹ کا علاقہ غزنوی سلطنت کا حصّہ بن گیا۔
نارائن پور پر حملہ
اکتوبر1009ءمیں اس نے ریاست الور میں نارائن کوٹ پر حملہ کیا۔ راجہ نارائن کوٹ بڑی بہادری سے لڑا لیکن اسے شکست ہوگئی اور اس نے اطاعت قبول کرتے ہوئے پچاس ہاتھی‘دو ہزار سپاہی دینے کے علاوہ سالانہ خراج ادا کرنے کا وعدہ کرکے اپنی حکومت بچالی۔ اس موقع پر اس نے گجرات کا رخ بھی کیا۔ کسی قلعے پر حملہ تو نہیں کیا لیکن عُتبی کے بقول ملک کے بدمعاشوں کو تہہ تیغ کیا ہر پہاڑی اور ہر وادی میں قتل عام کیا۔
غور پر قبضہ
سلطان محمود غزنوی نے1010ءمیں غزنی کے قریب واقع ایک خود مختار سردار محمود غزنوی بن سور پر حملہ کرکے غور پر قبضہ کرلیا۔ انہی غوریوں نے بعد میں غزنوی سلطنت کو ختم کی۔
ملتان پر دوبارہ حمل
اسی سال 1010ءمیں محمود غزنوی نے پھر ملتان پر حملہ کرکے اسے فتح کیا۔ شہر میں اسماعیلیوں اور ہندوﺅں کا قتل عام کیا گیا اور بہت سارے لوگوں کے ہاتھ اور پاﺅں کاٹ دیئے گئے۔ ملتان کا حاکم شیخ ابوالفتح یا ابوالفتوح واﺅد بن نصر گرفتار ہوگیا‘جو باقی زندگی غورک کے قلعے میں نظر بندرہ کر مرگیا۔ سلطان محمود غزنوی نے محمد بن قاسم کی مسجد کو،(جس کو جلم نے بند کرا دیا تھا‘)دوبارہ کھول دیا اور مرمت کرکے بحال کر دیا۔
آنند پال سے معاہدہ صلح
داﺅد کی شکست کے بعد محمود غزنوی نے پھر ہندوستان میں مزید فتوحات کا ارادہ بنایا۔آنند پال اب تک پھر اپنی فوج کی تشکیلِ نو کر چکا تھا۔ محمود غزنوی نے اس سے الجھنے کی بجائے‘اس سے دوستی کا معاہدہ کیا۔آنند پال نے محمود غزنوی کو تھانسیر پر حملے سے باز رہنے کی درخواست بھی کی اور اس کے صلے میں محمود غزنوی کو معاوضہ دینے کی پیشکش کی لیکن محمود غزنوی نے کہا کہ غیر مسلموں کی تمام عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ضروری ہے چانچہ 1012ءمیں محمود غزنوی تھانسیر پر حملہ کی جو اس وقت دہلی کے بادشاہکے تحت تھا۔ تھانسیر کے مندر میں ایک بت تھا‘جس کا نام چکر سوامی (مالک الملک)تھا۔ ہندوﺅں کے دل میں اس کی اتنی ہی عزت تھی جتنی مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ کی۔ شاہ دہلی نے اردگرد کے راجوں سے مدد لے کر مزاحمت کی تیاریاں شروع کی ہی تھیں کہ محمود غزنوی نے چکر سوامی مندر کو فتح کر لیا۔ اب اس نے ارادہ کیا کہ دہلی پر چڑھائی کرے لیکن امیروں‘وزیروں نے مشورہ دیا کہ جب تک آنند پال موجود ہے اور پنجاب فتح نہیں ہو جاتا‘دہلی پر حملہ کرنا مناسب نہیں چنانچہ وہ واپس غزنی چلا گیا دو لاکھ لونڈیاں اور غلام اپنے ساتھ لے گیا۔”اس سال غزنی میں اس قدر ہندوستانی صورتیں نظر آتی تھیں کہ غزنی بھی ہندوستان کا ایک شہر سمجھا جانے لگا۔ لشکرِ سلطانی کے ہر رکن کے پاس کئی کئی لونڈیاں اور غلام تھے“۔ چکر سوامی کانسی کا ایک بُت تھا جس کے ایک ہاتھ میں”چکر“ نامی ہنھیار تھا‘ یعنی پہیئے کی شکل کا۔ محمود غزنوی اسے ساتھ لے گیا اور غزنی کے اُس میدان میں اسے ڈال دیا جہاں گھڑ دوڑ اور دوسری کھیلیں ہوتی تھیں۔ محمود غزنوی یہاں سے بہت سے نوکر اور غلام ساتھ لے گیا۔پروفیسر محمد حبیب کے بقول اس نے بہت سے فوجی ہندوستان سے بھی بھرتی کئے جو بالآخر ایک الگ ہندو رجمنٹ کی شکل اختیار کر گئے ان کا جرنیل بھی ایک ہندو تھا۔
1012ءمیں آنند پال طبعی موت مر گیا‘اس کا بیٹا ترلوچن پال اور پوتا بھیم پال ہندو شاہی سلطنت کے وازث بنے۔ بھیم پال کو اس کے ہم عصر راجے”بھیم“ کہا کرتے تھے۔
ترلوچن پال
1012ءمیں باپ کی وفات کے بعد ترلوچن پال ہندو شاہی پنجابی سلطنت کے پایہءتخت نندنہ میں”شاہ“بنا۔ اگلے ہی سال اُس نے محمود غزنوی کو خراج بھیجا بند کر دیا۔ قلعہءنندنہ کو بالناتھ کا قلعہ بھی کہتے ہیں۔ ترلوچن پال نے یہ خبر سنی تو اپنے بیٹے بھیم پال کو اپنی جگہ متعین کرکے خود مہاراجہ کشمیر سے مدد لینے کشمیر چلا گیا۔ اس سے پہلے کہ مدد پہنچتی‘غزنوی فوجوں نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔1013ءمیں کافی خونریز جنگ کے بعد قلعہ فتح ہو گیا۔بھیم پال بھی بھاگ گیا۔ یہاں سے فارغ ہو کر محمود غزنوی نے کشمیر کا رخ کیا۔ دریائے تو ہی (موجودہ توی) کے کنارے جنگ ہوئی اور مہاراجہ کشمیر کی اور ہندو شاہی فوجوں کی متحد کمان کو جوکہ جنرل تنگا کے ماتحت تھی‘شکست ہو گئی۔ترلوچن پال ایک بار پھر کشمیر کی طرف بھاگا۔ اپنی بچی کھچی فوجوں کو جمع کیا اور ایک بار پِھر محمود غزنوی سے لڑا لیکن پھر شکست کھائی اور بھاگ کر سرہند(مشرقی پنجاب)چلا گیا جسے اُس نے اپنا پایہءتخت بنایا۔ یہ ہندو شاہی سلطنت کا آخری پایہءتخت تھا(پہلا کابل‘دوسرا گردیز‘تیسرا المغان‘چوتھا اوبھنڈ پور‘پانچواں نندنہ اور چھٹا سرہند)یہاں1013ءسے1018ءتک بھیم پال امن و امان سے اپنی فوج کی تعمیر نو کرتا رہا۔ لیکن محمود غزنوی نے اس پر کوئی حملہ نہ کیا۔ البتہ سرس وا(شروا) کے حاکم چند رائے سے بھیم پال کی مسلسل فوجی جھڑپیں چلتی رہیں اور آخر ایک موقع پر چند رائے نے بھیم پال کع گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔
محمود غزنوی کا کشمیر پر حملہ
406ھ(1015ئ)میں سلطان محمود غزنوی نے کشمیر کے سرحدی قلعے”لوہ کوٹ“ پر حملہ کیا۔ حملے کی خبر ملتے ہی مہاراجہ کشمیر کی فوجیں بھی مرکز سے یہاں پہنچ گئیں مگر اسی دوران برفباری شروع ہوگئی اور غزنوی فوجوں کو مایوس ہوکر واپس لوٹنا پڑا۔ واپسی پر رستے سے بھٹک کر وہ ایک ایسے جنگل میں پھنس گئے جہاں ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ محمود غزنوی کے بہت سے فوجی اس پانی میں ڈوب کر مر گئے۔ مال واسباب الگ بہہ گیا اور بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ چند روز بھٹکنے کے بعد وہ اس جگہ سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور سیدھے واپس غزنی چلے گئے۔ اس لئے یہ مہم بری طرح ناکام رہی۔
خوارزم کی فتح
1016ءمیں خوارزم پر ابولعباس مامون کی حکومت تھی۔ محمود غزنوی نے اپنی بہن کی شادی اس سے کردی تھی۔ ابھی اس کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا کہ خوارزم میں بغاوت ہوئی اور ابوالعباس قتل ہوگیا۔محمودغزنوی نے فوراً حملہ کیا‘بغاوت کو کچل دیا اور اپنے جرنیل التون تاش کو وہاں کا حاکم بنایا اور اسے خوارزم شاہ کا خطاب عطا کیا۔
(جاری ہے)