پچھلے دنوں مجھ سے ایک سوال کیا گیا۔ اس سوال کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے قصے سے تھا۔ یہ سوال اصلاً نیاز فتح پوری (1966۔1882) نے اٹھایا تھا۔ سوال کے مطابق حضرت ابراہیمؑ نے نمرود کو چیلنج دیا تھا کہ میرا خدا سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے۔ تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ اس موقع پر اگر نمرود کہہ دیتا کہ میں سورج کو مشرق سے نکالتا ہوں۔ تو اپنے خدا سے کہہ کہ وہ سورج کو مغرب سے نکالے تو حضرت ابراہیمؑ کے پاس کوئی جواب نہ رہ جاتا ہے۔ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات نقل کرکے سائل نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ان سوالات نے ان کے اندر اپنے عقیدے کے بارے میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے سوالات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان کو ایک آبائی مذہب کے طور پر اختیار کرتے ہیں، سوال کا جواب تلاش کرنے کے عمل میں ان کا ایمان ماں باپ کے مذہب کے بجائے اس حقیقی مذہب پر قائم ہوجاتا ہے جو اللہ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دور جدید کے سوالات کا مقابلہ صرف قرآن مجید کرسکتا ہے جو آخری اور ابدی کتاب ہے۔ مثلاً اسی سوال کو لے لیجیے۔اس سوال میں جو منطق کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح نمردو نے سورج دیوتا کا اوتار ہونے کے ناطے اپنے خدائی کا دعویٰ کیا تھا، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ نہ سورج دیوتا ہے نہ نمرود اس کا اوتار تھا، اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کا دعویٰ نبوت بھی بس ایک دعویٰ ہی تھا۔ نہ وہ نبی تھے نہ خدا کوئی ہستی ہے۔
اس مفروضہ منطق پر یہ سوال ٹھیک ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ واقعی خالق کائنات کے پیغمبر تھے اور جب پیغمبر آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ عام دستور کے برخلاف عالم اسباب میں وہ واقعات ظہور پذیر کرنا شروع ہوجاتے ہیں جنھیں عرف عام میں معجزات کہا جاتا ہے۔ اس لیے حقیقت یہ ہے کہ نمرود یہ مطالبہ کرتا تو یہ بات یقینی تھی کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا دیتے۔تاہم نمرود نے یہ مطالبہ نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ بے وقوف نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پیدا ہونے سے قبل بھی سورج مشرق سے نکلتا تھا اور اس کے مرنے کے بعد بھی سورج مشرق ہی سے نکلے گا۔ اس لیے وہ یہ دعویٰ کرنے کی پوزیشن ہی میں نہیں تھا کہ میں سورج کو مشرق سے نکالتا ہوں۔ مزید براں یہ کہ وہ خاموش ہونے کے بجائے اگر حضرت ابراہیمؑ کو یہ چیلنج دیتا تو صرف اسی قیمت پر کہ وہ عملی طور پر یہ مان لیتا کہ میں تو خدا نہیں ہوں، اب تم اپنے خدا کا خدا ہونا ثابت کرو۔ حضرت ابراہیم اس کا مطالبہ پورا کرتے یا نہ کرتے، مگر یہ بات سب پر واضح ہوجاتی کہ کم از کم نمرود خدا نہیں ہے۔ اس کا دعویٰ خدائی باطل ہے۔
چنانچہ نمرود نے اس بے وقوفی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے وہی کیا جو اس جیسے چالاک سیاسی لیڈر کو کرنا چاہیے تھا۔ اس نے بتوں کی توہین کے جرم میں حضرت ابراہیمؑ کو زندہ آگ میں پھینکے کا حکم دے دیا۔ جس کے بعد وہ معجزہ کر دیا گیا جو کسی پیغمبر کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ عالم اسباب میں مداخلت کرکے رونما کرتے ہیں۔ جس آگ میں حضرت ابراہیمؑ کو پھینکا گیا وہ آگ انھیں جلانے کے بجائے ان پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی۔
یہ معجزہ بتاتا ہے کہ نمرود اگر فرمائش کرتا تو آگ کی تاثیر کو الٹ دینے والا خدا سورج کو بھی مغرب سے نکال کر دکھا دیتا۔ مگر اس طرح خدا کو علانیہ دیکھنے کا مطالبہ کرنے والے منکرین خدا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پھر ان کے لیے معافی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔معافی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو سنجیدگی سے سچائی کو تلاش کرتے ہیں اور غلطی سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی صحیح بات سامنے آتی ہے حق کا اعتراف کرکے سجدے میں گرجاتے ہیں۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے