پاکستان نے کئی بہاریں دیکھ لیں لیکن کبھی ایسے حالات نہیں دیکھے جیسے اب ہیں, لوگ مہنگائی سے تنگ آگر خودکشیاں کر رہے ہیں ۔۔ مزدور کو مزدوری نہیں مل رہی , ہر زی روح پریشان ہے۔۔ اس وقت بد ترین ہیجانی کیفیت ہے ، مہنگائی ملک کی تاریخ کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے، اگر بروقت درست فیصلہ نہ کیا گیا تو شاید اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کافی دیر ہوجائے ۔۔
حالیہ صورتحال اس مقام پر آگئی ہے کہ آئے روز مہنگائی اور بے روزگاری سے ستائے عوام خودکشیاں کر رہے ہیں، وجہ کیا ہے اس کی ؟ کیوں ایک باپ اس قدر مجبو ر ہو جاتا ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے جگر گوشوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے؟؟ کیوں ایک ماں اس قدر بے بس ہو جاتی ہے کہ اپنے ہی بچوں کو بیچ دیتی ہے؟
کتنے بے رحم لگتے ہیں حالات کے ستائے ہوئے وہ ماں باپ جو اپنی معصوم کلیوں کو چند پیسوں کے عوض غلامی کے لیے لوگوں کے گھروں میں چھوڑ دیتے ہیں لیکن پھر بھی دو وقت کی روٹی کیلیے ترس رہے ہوتے ہیں، پاکستانی معیشت اس قدر تباہ ہو چکی ہے کہ آئے دن ہمیں نت نئی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہیں قتل کی، کہیں ڈکیتی کی، وجہ کیا ہے اس کی کبھی کسی نے سوچنے کی کوشش کی ہے؟ وجہ صرف ہماری معیشت کی تباہ حالی ، حد سے بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔۔
چند سال پہلے کچھ ہزار میں گھر کا ماہانہ راشن آ جاتا تھا لیکن آج ایسا ناممکن ہے۔۔ پہلے آئے دن صاحب حیثیت لوگ راشن کی تقسیم کرتے نظر آتے تھے، چلو سب نہیں تو کچھ لوگوں کا بھلا ہو جاتا تھا لیکن اب نہ تو کوئی صاحب حیثیت نظر آتا ہے، نہ کہیں راشن کی تقسیم۔۔ یہ لوگ بھی شاید موقع کا انتظار کرتے ہیں کہ جب موقع ملا بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیا، نیکی کی نیکی ہو جاتی اور فوٹو شوٹ کا فوٹو شوٹ ، واہ رے ۔۔۔۔ عجب دوغلہ مزاج ہے
ہمارا ملک اس وقت معاشی طور پر تباہ ہو چکا ہے لیکن ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں۔حکومت نے پیٹرول بم گرائے غریب پس گیا ، امیر کو کوئی فرق نہیں پڑا، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ،غریب خودکشی پر مجبور ہو گیا لیکن کیا اکھاڑ لیا کسی نے؟؟ ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کے بلوں میں ٹیکس لگتا کیا کر لیا کسی نے؟؟ نقصان کس کا ہوا؟ صرف غریب عوام کا، ہر طرح سے خوار کون ہوئے؟ پاکستانی عوام۔۔
حکومت نہ تو کبھی ملکی معیشت پر سنجیدہ ہوئی ،نہ ہو گی جس میں پٹرول کی قیمتوں کو ایک مہینے میں متعدد بار بڑھانا معاشی طور پرایک غیر سنجیدہ عمل ہی تھا کیونکہ ہمارے ملک میں معیشت اور سیاست کو ساتھ ساتھ چلایا جاتا ہے جس کا نقصان ہمارے ملک اور عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے ۔
آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے کہ نہیں، یہ بھی ایک عجیب سی ملک میں کشمکش چلتی رہتی ہے ، ملک کئی ماہ تک ہیجان کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے ۔ پھر مہنگائی بڑھتی ہے، ڈالر کا ریٹ بڑھتا رہے ، ہمارے حکمران محض تماشائی بنے سب دیکھتے ہیں اور عوام مزید قرض کے بوجھ تلے دب جاتی ہے ، ہر آنے والا حکمران عوام کو مہنگائی ختم کرنے کا لالی پاپ تھما دیتا ہے، عوام پاگلوں کی طرح ان کی ہر بات پر آمین کرتی ہے اور پھر جب ان کی نظروں سے یہ فریب کی دھند چھٹتی ہے تو وقت اور حالات بدل چکے ہوتے ہیں، نہ تو مہنگائی کم ہوتی، نہ قرض اترتے ہیں، نئے معاہدے ترتیب دیے جاتے ہیں اور نئے طریقے سے عوام کا ہی خون نچوڑا جاتا ہے۔۔
آج پاکستان کا بچہ بچہ قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے، بلکہ آنے والی نسلیں بھی قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک خاندان کسی وڈیرے سے قرض تو لیتا ہے لیکن ساری زندگی گزر جاتی، وہ قرض نہیں اترنا، اس کی ہر آنے والی نسل اس قرض کی بھرپائی میں لٹ جاتی لیکن قرض بڑھتا چلا جاتا ہے کبھی ختم نہیں ہوا۔۔ یا پھر بھٹوں کی مثال لے لیں ، قرض ایک فرد لیتا ہے، غلامی سارا خاندان کر رہا ہوتا ہے، پھر ایک قرض اتارنے کو اور قرض لیتے ہیں اور اس طرح موت تو آجاتی ہے لیکن قرض ویسے ہی رہتا ہے۔۔ یہی حال آئی ایم ایف کا ہے ، حکومت قرض لیتی ہے اور غلامی پوری قوم کر رہی ہوتی ہے۔۔۔
جو حکومت آتی ہے اس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے ، اب پاکستان کی معیشت مستحکم ہو گئی ہے، اب ہم نے مہنگائی پر کنٹرول شروع کردیا ہے لیکن عملی طورپر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
اگر اقتصادی سروے کو دیکھیں تو اس کے مطابق بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی شرح نمو7.9فیصد رہی جبکہ مواصلات اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 5.4فیصد رہی ۔ اگر سوچا جائے کہ اگر پی ٹی آئی اس قدر کام کررہی تھی تو پھر اس کو اچانک مہنگائی ،نا اہلی کی وجہ سے ہٹا دینا کونسی عقل مندی ہے؟ آپ نے اس حکومت کو ہٹا دیا ، پھر آپ ہمت کرتے اور مہنگائی نہ بڑھاتے، آپ نے حکومت میں آکر مہنگائی کو بڑھانا ہی تھا تو آپ حکومت میں کیوں آئے۔ عام لوگ پچھلی حکومت سے مہنگائی کی وجہ سے تنگ تھے، پی ڈی ایم حکومت بھی سابق حکومت پر مہنگائی کا رونا روتی تھی لیکن خود تو پچھلی حکومت سے مہنگائی میں ایک ہاتھ آگے نکل گئی ، رہی سہی کسر نگران حکومت نے پوری کر دی ۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔