بڑی تخلیق وہ ہے جو قاری کو جہانِ حیرت میں مبتلا کر دے۔ بڑی کتاب وہ ہے جو اپنے تخلیق کار سے آگے نکل جائے جسے پڑھ کر اُسے لگے کہ ایک انسان یہ سب کچھ کیسے سوچ سکتا ہے،کیسے لکھ سکتا ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے ”میں ہوں جہاں گرد“ لکھ کر ایک ایسی ہی حیرت سے قارئین کو دوچار کیا ہے، سفر سبھی کرتے ہیں اردو میں اڑھائی ہزار سے زائد سفر نامے بھی لکھے گئے ہیں تاہم فرخ سہیل گوئندی کھلی آنکھ سے سفر تو کرتا ہی ہے، مگر اُس کے اندر ایک دوسری آنکھ بھی ہے جو لوگوں کے چہرے ہی نہیں اُن کے محسوسات اور جذبات کو بھی پڑھ لیتی ہے، تہذیب و تمدن اور تاریخ و ثقافت کے اُن دروازوں پر بھی دستک دیتی ہے جو عام سیاح کو ہمیشہ بند ملتے ہیں۔سیاحت اور تخلیق کا اگر حیران کن امتزاج دیکھنا ہو تو ”میں ہوں جہاں گرد“ اُس کی منفرد مثال ہے،کیونکہ اس سفرنامے میں فرخ سہیل گوئندی نے اپنی ترقی پسند سوچ،بلکہ جبلت کو کبھی خود سے جدا نہیں ہونے دیا۔اِس کتاب میں اُس کی جہاں گردی اسی وجہ سے دقیانوسیت اور بوسیدگی سے ماوراء نظر آتی ہے،تہران میں جب شوقیہ ٹیکسی چلانے والے علی مشہدی کے ہمراہ سفر کا موقع ملتا ہے،جس کے ساتھ اُس کی بیوی بھی ہے تو انقلاب ایران کے خلاف اُس کی باتوں پر وہ انجانے خوف میں مبتلا ضرور ہوتا ہے کہ یہ کہیں بوبی ٹریپ ہی نہ ہو،مگر اندر اُس پر سرشاری کا عالم بھی طاری رہتا ہے کہ تہران کی ڈری سہمی فضاء میں اُسے تصویر کے دوسرے رخ کا پتہ چل گیا۔
یہ سفر نامہ ایران، ترکی اور بلغاریہ کے سفر پر مشتمل ہے۔ پہلی حیرت تو یہ ہے کہ41سال پہلے کیا جانے والا سفر اگر آج بھی قاری کا دل کھینچ لیتا ہے تو یہ فرخ سہیل گوئندی کی زندہ تحریر کا اعجاز ہے۔پھر یہ سفر اُس عہد میں کیا گیا جب ایران خمینی کے انقلاب سے تازہ تازہ فیض یاب ہوا تھا،اس اہم دور میں فرخ سہیل گوئندی جیسے نظریاتی آدمی کا آثار مٹتے اور نئے آثار کو جنم لیتے دیکھنا یقینا ایک ایسا عمل ہے،جس نے یہ شاہکار تخلیق کرایا ہے۔یہ تین ممالک کا سفر نہیں،بلکہ تین نظریاتی، تین سوچوں اور تین متحارب تہذیبوں کا سفر ہے۔ایران میں اسلامی انقلاب کی نمو کاری سے گذر کر فرخ سہیل گوئندی جب ترکی کے سرمایہ دارانہ معاشرے میں داخل ہوتا ہے تو اُس کے اندر کئی تلاطم برپا ہوتے ہیں،پھر اس کی خوشی اُس وقت دیدنی ہوتی ہے جب وہ بلغاریہ کی سرخ جنت میں داخل ہوتا ہے۔سفر نامے کے اس حصے میں فرخ سہیل گوئندی سوشلسٹ دیوانہ لگتا ہے، بلغاریہ کی سرحد پار کرنے سے پہلے اُن کا دوست زاہد مشورہ دیتا ہے کہ ترکی سے جینز، شرٹس اور مارلبرو سگریٹ بلغاریہ لے جائے، وہاں مہنگے داموں بکیں گے،مارلبرو کی سگریٹ پر تو کمیونسٹ حسینائیں ٹوٹ پڑیں گی، مگر وہ یہ کہہ کر انکار کر دیتا ہے کہ میری کمائی سیاحت ہے، جو میں کرنے جا رہا ہوں، حالانکہ بیس سال کی عمر کا یہ نوجوان اگر چاہتا تو ہمارے بعض سفر نامہ نگاروں کی طرح مارلبرو سگریٹ کی ڈبی دکھا کر کئی حسیناؤں کے ساتھ رومانس کے وہ مناظر اس سفر نامے میں شامل کر سکتا تھا،جو پیار کا پہلا شعر بھلا دیتے، مگر وہ ٹھہرا پکا سوشلسٹ،ان باتوں کے لئے اُس کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ فرخ سہیل گوئندی نے ”میں ہوں جہاں گرد“ میں تین چیزوں کو اپنے سے جدا نہیں ہونے دیا۔ سرگودھا، لاہور اور ذوالفقار علی بھٹو، سرگودھا جہاں اُس کی پرورش ہوئی،لاہور جہاں اُس نے شعور کی آنکھ کھولی اور بھٹو جس سے اُس نے عشق کیا۔بھٹو سے عشق سوشلسٹ انقلاب کی حمایت اور آمریت کے خلاف تھا۔ سفر نامے میں گوئندی کا بلغاریہ کی سرحد پر داخلے سے پہلے امیگریشن افسر سے جو مکالمہ ہے، وہ اِس امر کی گواہی ہے کہ فرخ سہیل گوئندی نے جنرل ضیاء کی آمریت میں علم بغاوت بلند کیا،اُس دور میں یہ تصور ممکن نہیں تھا کہ کوئی پاکستانی کسی سوشلسٹ ملک کا سفر کر سکتا ہے،مگر یہ فرخ سہیل گوئندی تھا جس نے اپنے جنون کو مرنے نہیں دیا۔ امیگریشن افسر کی یہ حیرت نہیں جا رہی تھی کہ ایک پاکستانی اور سوشلسٹ، مگر گوئندی اسے اپنی پیٹھ پر کوڑوں کے نشان تک دکھانے کو تیار تھا۔ ہم نے سرخ ہے سرخ ہے ایشیاء سرخ ہے کے صرف نعرے سنے، فرخ سہیل گوئندی بلغاریہ کی سرخ جنت میں بذاتِ خود پہنچ گیا،اس سفر نامے کو پڑھ کر سوشلسٹ دنیا کے بارے میں مطالعہ پاکستان کی طرح ڈالا تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ان معاشروں میں سرمایہ دارانہ ممالک کی نسبت کہیں زیادہ سکون ہے۔
”میں ہوں جہاں گرد“ اس لحاظ سے بھی ایک منفرد سفر نامہ ہے کہ فرخ سہیل گوئندی کی آنکھ نے جو مناظر دیکھے اور دکھائے ہیں،اُس نے ہمارے ذہنوں میں بنی بہت سی خود ساختہ عمارتوں کو زمین بوس کر دیا ہے۔سرمایہ دارانہ پروپیگنڈے نے ہمیں بتایا کہ سوشلسٹ دنیا میں انسان ایک مجبور اور محبوس زندگی گزارتا ہے، جہاں کلچر پنپتا ہے اور نہ انسانی فکر پروان چڑھتی ہے،مگر اس سفر نامے میں فرخ سہیل گوئندی نے جس سوشلزم کو صوفیہ کی گلیوں میں دیکھا اور دکھایا ہے،اُس نے سرمایہ د ارانہ ماضی کے جعلی عکس کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔
”میں ہوں جہاں گرد“، ہر لحاظ سے ایک منفرد سفر نامہ ہے۔ گوئندی کے ساتھ ایک سیاح ہی نہیں ایک محقق اور تاریخ دان بھی سفر کرتا ہے۔ایک جسم میں تین انسان فرخ سہیل گوئندی کی وہ تثلیث ہے،جو انہیں ایک سفر نامہ نگار سے بڑھ کر ایک مبلغ، مفکر اور مجتہد ثابت کرتی ہے،کسی نظریاتی آدمی کا سفر اُس عام سیاح سے مختلف ہوتا ہے جو صرف مناظر اور اُن کی تفصیل بتاتا ہے۔ ”میں ہوں جہاں گرد“ کی ایک اور بڑی خوابی اس کے کردار ہیں۔ فرخ سہیل گوئندی ایک ہیرو ہے جس کے گرد اَن گنت کرداروں کی کہکشاں نظر آتی ہے،ان کرداروں کے ذریعے فرخ سہیل گوئندی پر جہاں اس طلسمانی دنیا کے اسرار کھلتے ہیں وہاں اُن کا اپنا کردار بھی اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ترغیبات اور تعیشات کی ریل پیل میں گوئندی کے اندر کا کامریڈ اُسے بھٹکنے نہیں دیتا، ساتھ چلتا ہے۔آج انٹرنیٹ اور گوگل کی دنیا کے ہر خطے میں اپنے موبائل کے ذریعے جانا آسان ہے۔یو ٹیوب ہر منظر کو دکھانے کی آسانیاں فراہم کرتا ہے۔میں بڑی آسانی سے ایران، ترکی اور بلغاریہ کی گھر بیٹھے سیاحت کر سکتا ہوں،مگر میں اُن محسوسات، فضاؤں میں رچی بسی خوشبو، انسانوں کی سوچ کے زاویوں، تہذیب و تمدن کے رچاؤ اور تاریخ کے بہتے اور مٹتے ادوار کو اس طرح مجسم نہیں دیکھ سکتا،جس طرح ”میں ہوں جہاں گرد“ میں فرخ سہیل گوئندی کا جادو اثر قلم دکھاتا ہے۔(گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی تقریب میں پڑھا گیا)