سچ کیا، الجھا دیا گیا؟ اب بھی آپس میں طے کر لو!

Nov 24, 2024

چوہدری خادم حسین

صبح جب گھر سے سودا لینے کے لئے نکلا تو سرپر بوندوں کا احساس ہوا،سڑک پر دیکھا  تو واقعی آسمان والا مہربان نظر آیا، لیکن یہ کیا ہوا کہ یہ سلسلہ بہت ہی ہلکا اور چند منٹوں کے لئے رہا اور پھر معدوم ہو گیا تھا،جب سودا لیا تو تھوڑی دیر ہی کے لئے سہی،یہ آرزو اور تمنا بھی پوری نہ ہوئی کہ ہلکی ہی سہی بارش ہو جائے۔بہرحال دہی230روپے فی کلو اور نئے آلو 186 روپے فی کلو خریدنے کے بعد دماغ بھک ہو گیا، ابھی یہ جھٹکا پوری طرح برداشت نہ ہوا تھا کہ انڈوں کی قیمت نے دم بخود کر دیا، جو ساڑھے تین سو روپے فی درجن ملے،سامنے مرغی والے کی دکان پر نظر گئی تو سلیٹ پر چاک سے لکھا نرخ470 روپے فی کلو تھا،اس کے ساتھ ہی مرغی کی قیمت میں کمی کا مسئلہ بھی سمجھ آ گیا کہ مرغی کی سیل کم ہوئی،پیداوار زیادہ اور فرخت کم ہو گئی تو مرغی پولٹری مافیا نے اپنے نفع کو بڑھانے کے لئے انڈوں کی قیمت بڑھا دی اور چوزوں کی جو بھرمار سیزن کمانے کے لئے  کی گئی تھی وہ گلے پڑ گی کہ ابھی لوگوں نے شادیوں کی بھرمار نہ کی تھی اور شادی گھروں کی بھی پہلے جیسی مصروفیت نہیں تھی، چنانچہ پولٹری کے ”وڈوں“ نے روایتی حربہ اختیار کیا اور انڈوں کے نرخ بڑھا دیئے، دکان دار نے ہنس کر تسلی دی، سرد دن جو آ گئے ہیں۔یوں صبح ہی صبح موڈ اور منہ کا ذائقہ خراب کر کے واپس گھرآ گیا اور صبر کے گھونٹ پی کر سوچا مہنگائی بہت کم ہو گئی  ہے یہ38 فیصد سے7فیصد تک آ گئی  ہے۔ حکومت وقت بھی یہی راگ الاپ رہی ہے لیکن برسر زمین یہ حالات نہیں ہیں اس خریداری نے احساس  دلایا کہ ہم ہی غلط سوچ رہے ہیں کہ حکمرانوں کا  فیصلہ مختلف ہے وہ تو یہ سمجھا رہے ہیں کہ غلط نہیں، پہلے مہنگائی38فی صد کے حساب سے بڑھ رہی تھی یہ رُک گئی اور اب گرانی میں اضافے کی شرح سات فی صد رہ گئی اور یوں ان کو ریلیف ملا ہے جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو ان کی فکر کسے ہے یہ سب تو بھیڑوں کا ریوڑ ہیں۔ان کو جس طرف  ہانکو، ادھر ہی جائیں گے۔

اس صورتحال ہی سے توجہ خبروں کی گئی طرف  گئی جو عجیب لگیں کہ جس سینئر صحافی نے بات چیت کی اطلاع دی،ان کی خبر رابطوں کی اطلاع پر مبنی تھی،ان کی تحریر سے میں نے جو اُخذ کیا وہ تو یہ تھا کہ ”وچ وچولوں“ کی کاوش ہے۔عمران خان بھی رضا مند ہیں کہ رابطہ کاروں کے درمیان فارمولا ،حکومت مائنس اور اسٹیبلشمنٹ اِن تھی تاہم خبر میں بتایا گیا تھا کہ رابطے درست رہے تو پہلے حکومتی منشاء اور پھر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی،اِس سلسلے میں پی ٹی آئی کے معزز رہنما رؤف حسن کا انٹرویو اور ہی  کچھ کہہ رہا تھا، وہ تو یہ دعویٰ کرتے پائے گئے کہ بات چیت ہو رہی ہے اور جس سطح پر یہ مذاکرات جاری ہیں وہ محسن نقوی سے بہت اوپر کی بات ہے۔اگرچہ جاننے والے جانتے اور کہتے ہیں کہ محسن نقوی تو سکائی لیب ہیں اور بہت اوپر سے گرے ہیں اور پھر سپہ سالارِ اعظم نے پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جو  الفاظ کہے وہ بڑے واضح ہیں۔اس تقریب میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین بھی موجود تھے اور ان کی موجودگی میں یہ کہا گیا کہ قومی سلامتی پرکوئی سمجھوتہ نہیں، اس کے علاوہ ایک موقر اخبار نے عسکری ذرائع کے حوالے سے اِس امرکی تردید بھی کر دی کہ کسی سطح پر مذاکرات ہو رہے ہیں اور عسکری ذرائع نے یہ موقف دہرایا کہ 9مئی کے واقعات پر شرمندگی کا اظہار اور معافی مانگے بغیر کوئی رابطہ بھی ممکن نہیں،میرے خیال میں یہ حلقے علی امین گنڈاپور پر زیادہ بھروسہ کر رہے ہیں جو اکثر  راتیں کور کمانڈر  پشاور کے ساتھ محفل آرائی میں گذارتے ہیں۔

انہی حوالوں اور حالات کے دوران دن گذرتے رہے اور24 نومبر قریب آتا چلا گیا،اس دن کے لئے تحریک انصاف کی طرف سے احتجاج  کا ذکر کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ تمام عوام بانی جماعت عمران خان کی کال پر باہر نکل کر اسلام آباد پہنچیں گے،اس سلسلے میں حکومت کی پریشانی یہ ہے کہ بیلا روس کا اہم وفد24 نومبر کو اسلام آباد آئے گا اور اِس سے اگلے روز بیلا روس کے صدر آئیں گے، اور یوں حکومت کی مجبوری ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کرے اسی لئے محسن نقوی خود بہت متحرک ہیں اور انہوں نے اسلام آباد کو محصور و محفوظ بنانے کی حکمت عملی پرکام کیا ہے اور اِس سلسلے میں جو اقدامات کئے گئے ان کی وجہ سے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی کہ مذاکرات کا سلسلہ نہیں ہے اور عسکری ذرائع سے اس کی تردید بھی کی گئی ہے یوں ایک عجیب سلسلہ ہے، (سمجھنے اور نہ سمجھانے کا)  تاہم لگتا یہی ہے اور گل فیر ودھ گئی ہے، جس پر تیل ڈالنے کا کام بیگم بشریٰ عمران نے کر دیا،اب اسٹیبلشمنٹ مجبور ہو گئی ہے کہ مذاکرات کی تجویز سے اتفاق نہ کرے اور حفاظتی اقدامات کو موثر بنایا جائے، میں نے اپنے رپورٹنگ کے طویل دور میں ایسی صورتحال نہیں دیکھی جیسی اب ہے۔تحریک انصاف والوں نے خود مذاکرات، مذاکرات کی رٹ لگا کر اپنی کمزوری آشکار کی ہے جبکہ دوسری انتظامیہ پِینک ہو گئی ہے اور اسلام آباد کے تحفظ کے لئے پورے ملک کو بند کر کے ازخود تاثر پیدا کیا کہ تحریک انصاف کے احتجاج کی وجہ سے حکومت بوکھلا گئی ہے،میں نے اپنی صحافتی زندگی میں ایسی بندش نہیں دیکھی جیسی اب ہے،انتظامیہ کو جو انتظامات کرنا تھے وہ اپنے اپنے علاقے میں کرتی یہ نہیں کہ اسلام آباد کو ہی دنیا ہے، الگ کر کے رکھ دیا جائے۔بہرحال آج بھی یہ ضرورت”خوف“ کا تاثر دیتی ہے اور انصافیوں کو طنز کرنے کا معروف موقع دے دیا گیا ہے۔

میری اور میرے جیسے دوستوں کی اب بھی یہی رائے ہے کہ چھوڑیں اس محاذ آرائی کو اور مل بیٹھ کر فیصلہ کر  لیں کہ آخری بات تو بات چیت ہی ہے۔

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں