تحریک انصاف نظام سے باہر کیسے آئی ۔۔۔

Oct 24, 2024 | 01:35 PM

سید صداقت علی شاہ

یہ مارچ 2022ء کی بات ہے۔ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی جبکہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کیخلاف پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد داخل ہو چکی تھی۔ تمام اتحادی ایک ایک کر کے وزیراعظم عمران خان کا ساتھ چھوڑتے جا رہے تھے۔ ایسے میں ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کیلئے مسلم لیگ (ق) پاکستان تحریک انصاف سے جا ملی۔ 28 مارچ کو کپتان نے ”وسیم اکرم پلس“ عثمان بزدار سے استعفا لے لیا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا۔ اسی دن اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ)نے عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کراد ی۔
9اپریل 2022ء کی رات وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔عمران خان کو ملک کے پہلے وزیراعظم کا اعزاز ملا، جنہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔
عدم اعتماد کی تحریک174ووٹوں سے منظور کی گئی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس صبح ساڑھے دس بجے شروع ہوا، سارا دن لیت و لعل سے کام لیا جاتا رہا
آئینی اور قانونی طور پر ووٹنگ کا عمل ہر صورت مکمل کیا جانا تھا لیکن تحریک انصاف کے سپیکر اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے معاملہ اتنا پیچیدہ کیا کہ رات ہو گئی۔
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے دروازے ہفتے کی رات چھٹی والے دن کھول دیئے گئے تاکہ آئینی بحران سے بچا جا سکے۔
”کپتان“ کی وفاق میں حکومت ختم ہو گئی مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ان کی حکومتیں برقرار تھیں۔
16 اپریل 2022ء کو حمزہ شہباز  پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہو گئے اور ”کپتان“ کے ہاتھ سے پنجاب حکومت ”کچھ ماہ“ کیلئے نکل گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کے ا س وقت کے گورنر عمر سرفرازچیمہ نے حمزہ شہباز  سے حلف لینے سے انکار کر دیا اوربیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ حلف برداری کا معاملہ ہائی کورٹ میں چلا گیا۔عدالتی حکم پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے14 دن بعد 30 اپریل2022ء کو حمزہ شہباز  سے وزارت اعلیٰ کا حلف لیا۔
30 مئی 2022ء کو عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب عہدے سے چھٹی کرا دی گئی اور مسلم لیگ (ن )کی حکومت نے بلیغ الرحمان کو پنجاب کا نیا گورنر بنا دیا۔
اس سب کے باوجود معاملات نہ سدھرے۔ پنجاب حکومت کس کی ہے؟ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یہ معاملات چلتے رہے۔
یکم جولائی2022ء کو سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ انتخاب22 جولائی 2022ء کو کرانے کا حکم دے دیا۔ نئے انتخاب تک حمزہ شہباز  بطور وزیراعلیٰ برقرار رہیں گے، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے اس حوالے سے عدالتی فیصلے کو قبول کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل پر سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو 2 آپشن دیئے کہ 2 دن میں دوبارہ انتخاب پر مان جائیں یا پھر حمزہ شہباز کو17جولائی تک وزیراعلیٰ تسلیم کر لیں۔ 17جولائی کو ضمنی انتخاب کے بعد ہاؤس مکمل ہونے پر جس کی اکثریت ہو گی، وزیراعلیٰ بن جائے گا۔
22 جولائی کو حمزہ شہباز  دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے۔ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے چودھری پرویز الٰہی کے 10 ووٹ مسترد کر دیئے۔دوست مزاری نے اسمبلی میں چودھری شجاعت حسین کا خط پڑھ کر سنایا، جس میں اپنے ارکان کو حمزہ شہباز  کو ووٹ ڈالنے کی ہدایت کی۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس کے باوجود بھی حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ تسلیم نہ کیا۔ پنجاب کے قائد ایوان کا دوبارہ انتخاب سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
وزیراعظم کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد عمران خان نے ملک گیر جلسے کیے۔کپتان نے پنجاب پر فوکس کر رکھا تھا کیونکہ17جولائی 2022ء  کو 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن ہونا تھا۔ 
17 جولائی کے الیکشن میں عوام نے بلے پر مہر لگا دی۔20 نشستوں میں سے کپتان15 نشستیں لے اڑا اور مسلم لیگ (ن) کے حصے میں4 نشستیں آئیں۔
26 جولائی 2022ء  کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم قرار دے کر حمزہ شہباز  کو وزیراعلیٰ کے عہدے سے فارغ کر دیا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا۔
پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی گورنر پنجاب وزارت اعلیٰ کا حلف لینے سے انکار کر دیا۔ پہلے گورنر عمر سرفراز چیمہ تھے، اس بار بلیغ الرحمان نے انکار کیا۔ صدر عارف علوی نے چودھری پرویز الٰہی سے وزارت اعلیٰ کا حلف لیا۔
مسلم لیگ( ن) نے نہ چاہتے ہوئے بھی چودھری پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ تسلیم کر لیا۔لیکن ”کپتان“ کچھ اور چاہتا تھا۔ عمران خان ملک میں وقت سے پہلے الیکشن کے خواہاں تھے اور اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔ 17جولائی 2022ء کے ضمنی الیکشن کے نتائج ان کے سامنے تھے، وہ جانتے تھے کہ فوری الیکشن سے وہ تمام سیاسی جماعتوں کو چاروں خانے چت کر دیں گے اور پی ڈی ایم یہ جانتی تھی کہ اگرفوری الیکشن ہو گیا تو ان کا سیاسی دھڑن تختہ یقینی ہے۔ پی ڈی ایم نظام کو بچانے میں جت گئی اور تحریک انصاف نظام کو گرانے میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی۔
پھر ”کپتان“ کی سیاست میں وہ وقت آ گیا، جب اس نے عدالت کی طرف سے تھالی میں دی گئی پنجاب حکومت کی بھی قدر نہ کی ،

 خیبرپختونخوامیں تو پہلے سے ہی ”کپتان“ کی حکومت تھی۔
پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کیلئے مسلم لیگ( ن) نے 19 دسمبر 2022ء کو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی۔گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے چودھری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ دیا۔
جوڑ توڑ عروج پر پہنچ گیا، مسلم لیگ( ن) کی حتی الامکان کوشش تھی کہ کسی بھی طرح پنجاب اسمبلی کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔
11 جنوری 2023ء  کی رات11 بج کر 55 منٹ پرڈرامائی انداز میں پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا گیا۔ ٹھیک 10 منٹ پر 12بج کر 5 منٹ پر اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور پرویزالٰہی نے 186 کا میجک نمبر لے کر اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔
”کپتان“ کے پاس اب بھی وقت تھا۔ پنجاب حکومت ایک بار پھر اس کے پاس تھی۔ لیکن وہ ”ڈٹا“رہا۔
ٹھیک ایک دن بعد 12 جنوری کو چودھری پرویز الٰہی نے ”کپتان“ کی سیاست کے آگے ہتھیار ڈال دیئے اور پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کر دیئے۔
17 جنوری 2023ء کو ”کپتان“ کی ہدایت پر خیبر پختونخوا اسمبلی بھی توڑ دی گئی اور اس طرح پاکستان تحریک انصاف ”نظام“ سے باہر آ گئی۔
”کپتان“ کو فوری الیکشن نہ ملا۔ ”الٹا“ 9مئی ہو گیا۔ سب ”پھڑے“ گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کا ”کپتان“ گزشتہ ایک برس سے زائد سے جیل میں ہے۔ پارٹی کا کوئی”والی وارث“ نہیں۔ہر تدبیر الٹی پڑ رہی ہے۔ جماعت کے لیڈران ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ سوشل میڈیا ”ایکس“ پر ایک دوسرے کے گندے کپڑے دھو رہے ہیں۔ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں، کیا ہماری ”سیاست“ باقی ہے؟

نوٹ : ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزیدخبریں