ایس سی او سمٹ، روشن مستقبل کی طرف پیش رفت

Oct 24, 2024 | 09:08 PM

تحریر: زینب وحید

"ایس سی او سمٹ ٹویٹر پر ٹرینڈ کر رہی ہے، ریجن کیلئے اچھی پیش رفت ہے، جو میں دیکھ رہا ہوں اگر وہ درست ہےتو تمہیں بہت مبارک ہو۔ تمہارا ملک تو اچھا جا رہا ہے۔ کاش ہم مل کر چلیں، خطے کی خوشحالی اور سیکورٹی جیسے دیگر چیلجنز کا مل کر مقابلہ کر سکیں"۔ یہ جذبات ابھیمنو کے تھے جو کالج میں مجھ سے ایک سال سینئر ہے۔  

امریکی ریاست منی سوٹا میں موسم سرما کا آغاز ہو گیا ہے اور سورج دن بھر بادلوں کے پیچھے  چھپا رہتا ہے۔

 17 اکتوبر کو کچھ دھوپ نکلی تو سوچا دھوپ میں بیٹھ کر امتحانات کی کچھ تیاری کر لوں، اسی وقت ابھیمنو وہاں سے گزرا۔ اپنے موبائل پر ایکس کے ٹرینڈز دیکھ کر وہ پاس آیا اور ایس سی او سمٹ کا ذکر چھیڑ دیا اور کہنے لگا کہ کیوں نہیں پاکستان اور بھارت بھی امریکا کی طرح ترقی کر سکتے؟ کیوں یورپ کی طرح مل کر نہیں چل سکتے؟ کیوں نہیں مغربی اداروں کی طرز پر سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کی تنظیم کے طور مستحکم ہوسکتے ؟ کیوں ہم لڑائی جھگڑے ختم نہیں کرسکتے؟ 

ابھیمنو کو سوالات کے جوابات دینے اور امید کی کرن دکھانے کے لئے میں لیپ ٹاپ میں گوگل سرچ اُس کے سامنے رکھ دی۔ اُس کو ایس سی او کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں عزم ظاہر کیا گیا کہ خطے کے تمام ملک معاشی ترقی، استحکام اور خوشحالی کیلئے مل کر آگے بڑھیں گے، ریاستوں کی خودمختاری ، آزادی اور علاقائی سالمیت کا احترام کیا جائے گا، ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، اختلافات اور تنازعات پرامن انداز میں مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔ 

دراصل اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کو زبردست کامیابی ملی ہے۔ خطے کے عوام اور خصوصاً نوجوانوں کی فلاح و بہبود، تعلیم و تربیت ،علم و ہنر اور سرحدوں کی قید سے آزاد کلائمٹ چینج جیسے معاملات پر مل کر آگے بڑھنے کا عزم لاجواب ہے۔ بعض ناعاقبت اندیشوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل میں گھرے پاکستان کیلئے کامیاب ایس سی او کانفرنس تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ۔ یہ ایک طرف کامیاب خارجہ پالیسی کی عکاس ہے تو دوسری جانب اقتصادی طور پر گیم چینجر ہے۔ خوبصورت ایونٹ سے خود جنوبی ایشیا، یورپ اور امریکا میں بھی پاکستان کا مثبت تشخص ابھرا ہے۔ اس کامیابی کا سہرا یقیناً وزیراعظم جناب شہبازشریف کو جاتا ہے۔ انتظامات بھی انٹرنیشنل معیار کے تھے جس پر وزیراطلاعات عطاء تارڑ اور ان کی ٹیم کو شاباش بنتی ہے۔  

ایس سی او کے رکن ممالک نے مستحکم عالمی ترقی کے لیے کثیرالجہتی تجارتی نظام کو ناگزیر قرار دیا ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کافی تجاویز پیش کی ہیں جن میں مشترکہ کرنسی کا استعمال، بینکنگ چیلنجز کیلئے ایس سی او انٹربینک یونین فورم کا قیام ، مشترکہ سیکیورٹی ، باہمی تعاون بڑھانا اور کانفرنس کا کردار مزید مضبوط کرنا شامل ہے۔ وزیراعظم نے ان کیمرہ اجلاس میں علاقائی سلامتی اور کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام رکن ممالک کو مل کر منصوبہ بندی کرنے کی بھی تجویز دی۔ 

ایس سی او ریجن کا جغرافیہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم کا ہے جس میں شریک ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد بنتی ہے ۔ یہ ممالک دنیا بھر میں گیس کے 44 فیصد اور تیل کے 20 فیصد ذخائر کے مالک ہیں۔ 

اگر ایس سی او ممالک اعلامیئے میں متفقہ مجوزہ اقدامات پر عمل کا عزم مصمم کرلیں تو خطہ ترقی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ پاکستان کی حوصلہ افزائی ہو اور تعاون کیا جائے تو وسط ایشیا کے لینڈ لاکڈ ممالک کو گوادر کی بندرگاہ تک رسائی دے کر تین ارب لوگوں کو لڑی میں پرویا جاسکتا ہے۔ خطے میں تجارت، سیاحت، تعاون اور کئی دیگر شعبوں میں ترقی بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ رکن ممالک انٹرنیشنل چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی یکجہتی کو فروغ دیں تو عالمی سطح پر پورے خطے کی ساکھ بھی بلند ہو سکتی ہے، اسی طرح ایونٹ میں طے شدہ باہمی تعاون خطے کے تمام عوام کے لئے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ مبصرین متفق ہیں کہ ایس سی او کانفرنس سے عالمی سطح پر پاکستان کا وقار بلند اور جغرافیائی و اسٹرٹیجک محل وقوع کی اہمیت اجاگر ہوئی ہے۔ 

چین بھی ایس سی او سمٹ کو پاکستان کے لئے بہت اطمینان بخش سمجھتا ہے۔ چینی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کو تعلقات میں نئے باب کی شروعات، دو طرفہ تعاون، اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں وسعت اور سی پیک فیز ٹو پر پُرجوش پیشرفت سمجھا جا رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سی پیک جیسے پروجیکٹس کو مخصوص سیاسی تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ توقع ہے کہ چینی وزیراعظم کے دورے سے مشترکہ تعاون کے دوررس نتائج کی طرف پیشرفت تیز تر ہوگی جس سے پورے خطے کے مفاد اور کرۂ ارض کے امن کے امکانات روشن ہوں گے۔ اس موقع پر بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت بھی بہت اہم ہے۔ کانفرنس کے بعد ان کی نائب وزیراعظم اسحقاق ڈار سے مختصر ملاقات بہت اہمیت کی حامل رہی۔ مسکراہٹوں کے تبادلے سے دونوں ملکوں کے کروڑوں لوگوں کیلئے ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ مذاکرات ہی وہ واحد راستہ ہیں جس کے ذریعے ہم امن حاصل کرسکتے ہیں۔ جے شنکر کا پاکستان آنا تیزی سے بدلتے زمین حقائق کی طرف اشارہ بھی ہے بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ بھارت کو پاکستان دشمنی کا راگ بند کرنا ہوگی کیونکہ خطے کی ترقی خود بھارت کو بھی نئی بلندیوں تک لیکر جائے گی ۔

کانفرنس میں جو سیاسی عزائم سامنےآئے ہیں، اُن پر صدق دل سے عمل کیا جائے تو پورے خطے کے عوام کا بہتر معیارزندگی بلند ہوسکتا ہے، اب معاشی ترقی، استحکام اور خوشحالی کا مشترکہ مقصد حاصل کرنے کے لئے مل کر آگے بڑھنے ہی اپنا ایجنڈا بنانا ہوگا۔ دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی سماجی، سیاسی،معاشی اورسلامتی کی تبدیلیاں اور منظرنامے بھی اجتماعی دانش کے متقاضی ہیں۔  بہترین کنیکٹڈ ، مربوط اور خوشحال خطے کےلئے متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ ایس سی او ریجن میں غربت کے خاتمہ، خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے، باوقار، پائیدار اورمحفوظ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لئے ذاتی مفادات سے بلند ہوکر سوچنا ہوگا۔

شنگھائی تعاون کانفرنس کے انعقاد سے دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ پاکستانی قوم امن و خوشحالی پر یقین رکھتی ہے، ہمارا انسانیت کے مشترکہ مقاصد پر یقین ہے۔ الحمد اللہ، وہ مشکل وقت چلا گیا جب پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے اور خانہ جنگی کی باتیں ہو رہی تھیں۔ آج دو عالمی طاقتوں کے وزرائےاعظم کا پاکستان کے شانہ بشانہ چلنا ثابت کرتا ہے کہ ہم تنہائی کا شکار نہیں بلکہ متحرک دنیا کا اہم حصہ ہیں۔ اب ہماری اگلی منزل برکس کا رکن بننا ہونی چاہیئے۔ برکس کا روح رواں روس پاکستان کو پہلے ہی اس تنظیم مں شامل کرنے کی یقین دہانی کرا چکا ہے۔ اگر یہ سنگ میل عبور ہوجاتا ہے تو تجارت و سرمایہ کاری کے نئے راستے کھل جائیں گے۔ 

 جب اپنا قافلہ عزم ویقیں سے نکلے گا

جہاں سے چاہیں گے، رستہ وہیں سے نکلے گا

وطن کی مٹی! مجھے ایڑیاں رگڑنے دے

مجھے یقیں ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلےگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعارف مصنفہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 زینب وحید امریکا میں "کارلٹن کالج" کی اسٹوڈنٹ ہیں جو اکنامکس اورانوائرمنٹ ڈگری کی فُل رائیڈ اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔  یہ اعزاز حاصل کرنے والی وہ واحد پاکستانی طالبہ ہیں۔ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ کلائمٹ ایکٹوسٹ اور جرنلسٹ ہیں۔ مصنفہ، سوشل میڈیا کونٹینٹ کریئٹر اور مقررہ ہیں۔ پاکستان میں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان نے مشترکہ طور پر انہیں "کلائمٹ ہیرو"کے اعزاز سے نوازا ہے۔  یونیورسٹی آف ٹورنٹو، یورپ کے معتبر میگزین”جرنل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی”، اور نوبل پرائز ونر ملالہ یوسف زئی کے عالمی شہرت یافتہ میگزین “اسمبلی” میں مضامین چھپ چکے ہیں۔ پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قراردیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے ہے ، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں

مزیدخبریں