’’نہیں۔۔۔نہیں کہہ دو یہ خبر جھوٹ ہے۔‘‘بیگم حمیدا پہلوان نے اجنبی کا گریبان پکڑ لیا۔ ’’تجھے کس نے یہاں بھیجا ہے۔خدا کے واسطے سچ بتا تو جھوٹ تو نہیں بول رہا۔‘‘
پیغامبر تو خود رستم ہندکی خبر سے پژمردہ تھا۔ بولا۔’’بیگم صاحبہ سچ کہہ رہا ہوں۔ یہ لیں مہاراجہ حضور نے چٹھی بھیجی ہے۔‘‘
بیگم حمیدا پہلوان نے چٹھی جھٹ سے پکڑی اور کھول کر پڑی تو غش کھا کر گر پڑی۔رستم ہند کی موت سے صرف شیرانوالہ ہی نہیں پورے لاہور میں کہرام مچ گیا۔ جوں جوں خبر پھیلتی گئی توں توں حمیدا پہلوان کے شیدائیوں کا رخ شیرانوالہ باغ کو ہوتا چلا گیا۔ بھولو پہلوان اور اعظم چند دنوں بعد لاہور آگئے اور حمیدا پہلوان کی میت کو لاہور لانے کا بندوبست کرنے لگے۔ مہاراجہ کولہا پور اس سلسلے میں تگ ودو کررہے تھے۔ اگر دو ملکوں کا معاملہ نہ ہوتا تو میت فوری طور پر لاہور لائی جا سکتی تھی مگر اب کچھ قانون قاعدے حد فاصل بن گئے تھے۔ بھولو نے ایک تار نیروبی بھیج دی اور والد اور بھائیوں کو جلد واپسی کا کہا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر73 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
تار سات آٹھ اپریل کو پہنچا تو نیروبی کے دورے پر گئے پہلوان صدمے کے بوجھ تلے دب گئے۔ ابھی ان کی یوگنڈا میں مزید کشتیاں تھیں مگر انہوں نے فوری واپسی کا قصد کیا۔
11اپریل 1953ء کو واپسی تھی۔تمام پہلوان غم سے نڈھال تھے۔خلیفہ بلّو تو حمیدا پہلوان کا عاشق زار تھا اور دونوں ایک ہی مقصد سے مربوط تھے۔ ان دونوں کی ایک ہی خواہش تھی کہ بھولو برادران دنیائے شاہ زوری کے بے تاج بادشاہ بن جائیں۔ نیروبی جانے سے قبل خلیفہ بلّو اور حمیدا پہلوان نے اسی خواہش کو امر بنانے کے لیے عہد و پیمان کیا تھا۔
حمیدا پہلوان نے کہا تھا۔’’خلیفہ جی اپنی تو ایک ہی خواہش ہے کہ میرے بھانجے نظر بد سے بچیں رہیں اور دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بجے۔‘‘پھر اس نے عازم نیروبی ہوتے سمے خلیفہ بلّو سے کہا تھا۔’’خلیفہ جی ہم دونوں پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہیں۔ شیروں کا ایک گروہ لے کر آپ نیروبی جارہے ہیں تو دوسرا میں لے کر کولہا پور جاؤں گا۔ آپ کو کہنے تو ضرورت نہیں مگر پھر بھی بچوں کا خیال رکھئے گا۔‘‘
خلیفہ بلّو نے کہا۔’’بھاجی آپ غم نہ کریں۔ ہم دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔ میں نے بھی تو اپنی زندگی آپ کے مقصد کی تکمیل کے لیے وقف کر دی ہے۔ بس آپ پریشان نہ ہوں۔ میں اپنی جان پر کھیل کر بھی اپنے شاہ زوروں کا خیال رکھوں گا۔‘‘
’’آپ کی قربانیاں اور ولولہ بے مثال ہے خلیفہ جی۔‘‘حمیدا پہلوان نے کہا۔’’ہمیں آپ پر فخر ہے۔‘‘
نیروبی میں خلیفہ بلّو نے حمیدا پہلوان کی رحلت کی خبر سنی تو اسے غشی کے دورے پڑنے لگے تھے اور نیم بے ہوشی میں چلاتا رہا۔’’بھا،مجھے اکیلا چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔ تم نے تو ایک بڑے مقصد کا خواب دیکھا تھا۔ اب میں اپنی خواہش کیسے پوری کروں گا۔ ہائے لوگو میری جوڑی ٹوٹ گئی ہے۔ کوئی مجھے میرا رستم ہند کہیں سے لا دے۔‘‘
غم سے تو گاماں پہلوان اور امام بخش بھی نڈھال تھے مگر خلیفہ بلّو کا غم ان سے دیکھا نہیں جارہاتھا۔ وہ اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ کر اسے تسلی دے رہے تھے۔ خلیفہ بلّو کا غم بڑھتا چلا گیا اور پھر وہ نیم خوابی کی صورت میں ایک دن قیام گاہ سے باہر نکل گیا۔ یہ رات کا وقت تھا۔ نیروبی کی سڑکیں گھپ اندھیرے میں ڈوبی تھیں۔حکومت نے اس وقت عام و خواص کو سڑکوں پر نکلنے سے منع کر رکھا تھا۔ ان دنوں نیروبی میں علیحدگی کی تحریک عروج پر تھی۔ کالے گوروں کے خلاف چومکھی لڑ رہے تھے۔’’ماؤ ماؤ‘‘کے نام سے ایک بھرپور تحریک سرگرم عمل تھی۔اس کے کارکن روزانہ کسی نہ کسی انگریز یا حکومت کے حامی کی گردن مار دیتے تھے۔ حکومت نے اسلحہ کی ممانعت کر دی تھی اور اسلحہ رکھنے کے جرم میں قید خانے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لہٰذا ماؤ ماؤ تحریک کے کارکن ڈنڈوں سے مسلح رہتے تھے اور ان کے ڈنڈا گروپ راتوں کو سڑکوں پرنکل جاتے اور کسی نہتے شخص کو سر میں ڈنڈا مار کر ہلاکر دیتے تھے۔
پاکستانی پہلوانوں کو اس تحریک کی سرگرمیوں سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ وہ کبھی بھی رات کے وقت باہر نہ نکلیں۔خاص طور پر جب سے اکی پہلوان نے قبا کا قبیلے کے جوانوں کو پے درپے شکستوں سے دو چار کیا تھا تو متعصب افریقی ان کی جان کے دشمن بن گئے تھے۔لہٰذا اس معاملے میں زیادہ احتیاط برتی جاتی تھی۔
شو مئی قسمت۔۔۔خلیفہ بلّو جب باہر نکلا تو کسی کو خبر نہ ہوئی۔ابھی وہ سڑک پر کچھ گز ہی آگے گیا تھا کہ ’’ماؤ ماؤ‘‘ تحریک کے ایک ڈنڈا گروپ کے ہتھے چڑھ گیا۔خلیفہ بلّو کا دماغ تو پہلے ہی صدمے سے ماؤف تھا۔ جب پر سر پر زور دارنڈنے پڑے تو ذہن اور جسم کا تعلق ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا۔رات گئے جب امام بخش حاجت ضروریہ کے لیے اٹھا تو خلیفہ بلو کی چار پائی خالی دیکھی۔ اس نے سوچا شاید خلیفہ غسل خانے میں گیا ہو۔ وہ کافی دیر تک خلیفہ کا انتظار کرتا رہا۔ یونہی آدھ گھنٹہ گزر گیا تو اسے تشویش ہوئی۔اس نے باہر دالان میں نکل کر دیکھا تو باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ اس نے جھٹ سے اپنے بیٹوں کو اٹھایا اور پھر اپنے میزبانوں کو اطلاع بھجوائی۔ تھوڑی دیر بعد پولیس بھی آگئی۔ پولیس نے خلیفہ بلو کی لاش سڑک پر دیکھ لی تھی۔اس نے پہلوانوں کو خلیفہ بلو کے قتل کی خبر دی تو غم سے نڈھال پہلوان ایک اور صدمے کی تاب نہ لا سکے اور تقدیر کی ستم ظریفی پر گر یہ زار ہوئے۔
اگلے ہی روز خلیفہ بلّو کی لاش تابوت میں رکھ کر پہلوان عازم ملک ہوئے۔ان کا استقبال کرنے والوں نے جب تابوت دیکھا تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔ پھر جب خلیفہ بلّو کی ہلاکت کی خبر ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ خلیفہ بلّو کی لاش دو دن بعد لاہور لائی گئی۔اس دوہرے صدمے سے پہلوانوں کے گھر ماتم کدے میں بدل گئے۔خلیفہ بلو کو مہنی روڈ پیر مکی والے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
دو چار دنوں بعد امام بخش اور گاماں پہلوان نے حمیدا پہلوان کی میت لاہور لانے کا اصرار کیا تو12اپریل1953ء کو پہلوان مرحوم کے سسر عبدالحمید، سالاعبدالغنی اور بیگم کولہا پور روانہ ہوگئے۔تدفین کو اٹھارہ دن بیت چکے تھے۔ یہ سب ہی جانتے تھے کہ حمیدا پہلوان مہلک ٹیکہ لگنے سے جاں بحق ہوا ہے لہٰذا کسی نئے مسئلے سے بچنے کے لیے مہاراجہ کولہا پور نے ایک شرط دی اور کہا۔’’ہم نے حمیدا پہلوان کو امانتاً دفن کیا ہے۔ مگر اب اس شرط پر تابوت واپس کریں گے کہ آپ تابوت کھلوا کر آخری دیدیار نہیں کریں گے۔‘‘
بیگم حمیدا نے کہا۔’’یہ تو زیادتی ہے۔ مجھے اپنے محبوب شوہر کے دیدار سے کیوں محروم کیا جارہا ہے۔‘‘
مہاراجہ نے کہا۔’’میں اس کو اب ہوا نہیں لگنے دینا چاہتا۔میرا رستم میٹھی نیند سو رہا ہے۔ اسے اب دنیا کی روشنی نہیں لگنی چاہئے۔اگر آپ لوگ بضد ہوں گے تو میں ادھر ہی اس کا مزار بنواؤں گا اور میت ہر گز پاکستان نہیں جانے دوں گا۔‘‘
کافی سوچ بچار کے بعد بیگم حمیدا پہلوان نے وعدہ کیا وہ اپنے مرحوم شوہر کا دیدار نہیں کرے گی۔ تابوت ان کے حوالے کیا گیا اور پھر23اپریل1953ء کو حمیدا پہلوان رستم ہند، کو پیر مکی میں دفن کر دیا گیا۔
شاہ زوروں کا خاندان ابھی غموں کے اس بوجھ تلے سے نہیں نکلا تھا کہ رستم زماں گاماں پہلوان جو چند دنوں کے لیے کراچی گئے تھے،انہیں دل کا دورہ پڑ گیا۔ امام بخش اور بھولو برادران ان دنوں لاہور ہی میں تھے۔ حمیدا پہلوان کی موت نے انہیں سوگوار کر چھوڑا تھا۔ وہ کئی ہفتوں سے اکھاڑے میں بھی نہیں جارہے تھے۔ پھر جب گاماں رستم زماں کو دل کا دورہ پڑنے کی خبر ملی تو بھولو پہلوان اور امام بخش اور اچھا پہلوان کراچی پہنچ گئے۔ گاماں پہلوان75برس سے اوپر کے ہو چکے تھے۔ ان کی کمپنی کراچی میں ناکام ہو گئی تھی اور اوپر سے دو اموات کے صدمے نے انہیں رنجور کر دیا تھا۔ وہ دل جو میدان میں اترتے بلیوں اچھلا کر تا تھا۔اب بے وفائی پر اتر آیا تھا۔ ڈاکٹر نے واضح کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ دل اب چند دنوں کا مہمان ہے۔ اس کو اب تھکایا نہ جائے۔ ورزش اور چلنے پھرنے سے پرہیز کیا جائے۔ حتیٰ کہ گفتگو بھی نہ کی جائے۔ امام بخش اور بھولو پہلوان نے اصرار کیا اور گاماں پہلوان کو بوریا بستر سمیٹ کر لاہور واپسی کا کہا۔ چند ہفتے بعد گاماں پہلوان مستقلاً لاہور مہنی روڈ پر منتقل ہو گئے۔
ایک آدھ سال آرام سے کٹ گیا۔صدمے نڈھال ہو کر دم توڑنے لگے۔ بھولو برادران پھر سے کشتیوں میں جت گئے۔ اسی طرح1955ء کا سال آپہنچا۔ گاماں پہلوان کا دل ایک سال میں تین بار ایسا دھڑکا کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ بیٹیاں اور داماد حد سے زیادہ تابعدار تھے۔ ان کی دلجوئی اور خدمت گزاری میں جت گئے اور گاماں پہلوان بھی اب ڈاکٹروں کے کہے پر عمل کرنے پر مجبور تھا۔ ورنہ وہ تو چوہتر برس کی عمر میں نیروبی کے دورے پر گئے تھے، ساری دنیا کے پہلوانوں کو ایک بار پھر چیلنج کرچکے تھے۔ بوڑھے شیر کی دھاڑ کا کسی نے جواب نہ دیا تھا مگر دل کے چار دورے پڑچکنے کے بعد گاماں پہلوان کو فصیل جاں لرزتی محسوس ہونے لگی تھی اور وہ ورزش اور اعلیٰ خوراک سے ہمیشہ کے لیے تائب ہو گئے۔البتہ صبح دم چہل قدمی کو معمولی بنائے رکھا۔ جس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا اور ان کی طبعیت کی روانی عود آئی۔
1958ء میں بھولو برادران کو سنگاپور، ملائشیا سے دعوت ملی تو وہ امام بخش کو گاماں پہلوان کے پاس چھوڑ گئے اور خود بھولو پہلوان زندگی میں پہلی بار شاہ زوروں کے جتھے کا سالار اعلیٰ بن کر روانہ ہوا۔(جاری ہے)
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر75 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں