اسلام آباد(آئی این پی ) وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ امریکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کردے تو ہم بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، ملزم اگر کسی مقدمے کا سامنا کر رہا ہے اور جوڈیشل حراست میں ہے تو حکومت کیسے رہا کرسکتی ہے۔
ایک انٹرویو میں راناثنااللہ نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کے تمام مطالبات سے اتفاق کر یں یا وہ ہمار ے مطالبات پر متفق ہوں، ہماری طرف سے ایسا معاملہ نہیں کہ فوری میٹنگز کریں، اگر پی ٹی آئی جلد کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتی ہے تو ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، ٹائم فریم اگر وہ مقرر کرنا چاہیں گے تو بالکل ہوجائیگا۔ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے کام آئین و قانون کے تحت ہی کرنے ہیں، ملزم اگر کوئی ٹرائل فیس کر رہا ہے اور جوڈیشل کسٹڈی میں ہے تو حکومت کیسے رہا کرسکتی ہے، کرمنل کیس پر جوڈیشل کمیشن کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی، ہمارے خلاف کتنے کیسز درج ہوئے،کوئی جوڈیشل کمیشن بنا؟۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ایک جرم ہوا ہے،کرمنل ایکٹ ہوا ہے اس پر ایف آئی آر ہوتی ہے، تحقیقات ہوتی ہے، تحقیقات پولیس اور دیگرنے کرنی ہوتی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے پریشر پر تو ہم کوئی کام نہیں کریں گے، اگر مداخلت کی گئی تو اپنی خودمختاری میں مداخلت تصور کریں گے، ٹوئٹس اور بیانات پر تو ہم کام کرنے والے نہیں ہیں۔ رانا ثنااللہ کاکہنا تھا کہ حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں باہمی سطح پر بات چیت ہونی چاہیے، ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کی وجہ سے مذاکرات شروع نہیں کیے، عافیہ صدیقی بھی تو امریکہ میں ایک عرصے سے قید ہیں، ہم بھی یہ ایشو اٹھائیں گے، امریکہ عافیہ صدیقی کو رہا کردے تو ہم بانی پی ٹی آئی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے یہ بات باخبر حلقوں سے سنی ہے کہ امریکہ سے شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے بڑا پریشر تھا کہ وہ ہمارا ہیرو ہے اسے رہا کریں لیکن پاکستان کی جانب سے کہا گیا کہ اگر آپ شکیل کو لینا چاہتے ہیں تو آپ عافیہ صدیقی کو رہا کردیں جس پر امریکہ سے جواب ملا کہ ہمارا عدالتی نظام ہے، عافیہ کو عدالت سے سزا ملی ہے، جس پر پاکستان کی جانب سے بھی کہا گیا کہ شکیل آفریدی کو بھی ہماری عدالتوں سے سزا ہوئی ہے۔امریکہ میں حکومت کی تبدیلی کے سوال پر رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومت کو قطعا کوئی گھبراہٹ نہیں، وزیراعظم نے دوٹوک کہا ہے کہ اپنے دفاع اور خود مختاری کا دفاع کریں گے،امریکہ کے ساتھ تعلقات میں پہلے بھی دراڑیں آتی رہی ہیں، جو بات ملکی مفادات کے برعکس ہے ایسا نہیں کہ اس کو تسلیم کیا جائے۔