مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:120
”چاہیے“، ”ضرور چاہیے“ اور ”ضروری ہو گا“ پر مبنی احمقانہ رویہ
مشہور ماہر نفسیات کیرن ہارنی اپنے مضمون "The Tyranny of the shoulds" میں رقمطراز ہے:
”چاہیے“ کے باعث ہمیشہ ہی پریشانی اور تناؤ کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ احساس اتنا ہی زیادہ ہوتا جاتا ہے جس قدر انسان ”چاہیے“ کو اپنے روزمرہ معمولات زندگی میں زیادہ سے زیادہ استعمال کرتا ہے…… مزیدبرآں بیرونی حصار میں مقید رہنے کے باعث ”چاہیے“ کے ذریعے انسانی تعلق داری میں کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ پریشانی اور تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔“
کیا ”اگر، مگر، کاش اور چاہیے“ آپ کے زندگی کے روزمرہ امورکا تعین کرتے ہیں؟ کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو اپنے ساتھیوں‘ ہم جماعتوں کے ساتھ شفیق سلوک کرنا چاہیے اور اپنے شریک حیات کے ساتھ ہمدردانہ اور مؤثر رویہ اختیار کرنا چاہیے۔“ اپنے بچوں کے ساتھ بہت ہی اچھا طورطریقہ اختیار کرنا چاہیے اور ہمیشہ سخت محنت کرنا چاہیے اور اگرکبھی آپ ان ”چاہیے“ میں ناکام ہو جاتے ہیں تو پھر کیا آپ پریشان ہو جاتے ہیں اور ذہنی دباؤ و تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ”چاہیے“ آپ کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ دوسروں کے لیے ہے اور آپ نے ان سے ادھار لیا ہوا ہے۔
اس دنیا میں بیشمار ”چاہیے“ موجود ہیں ”تمہیں درشت لہجے میں بات نہیں کرنا چاہیے“، ”تمہیں ناراض، بے وقوف، احمق، افسردہ اور غمگین، جارحیت پسند“ وغیرہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ یہ ”چاہیے“ استعمال نہیں کرتے تو آپ کو کوئی سزا نہیں دے گا۔ اس کے علاوہ آپ وہ کچھ نہیں ہو سکتے جو آپ بننا نہیں چاہتے۔ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی بھی ”چاہیے“ آپ کو پریشانی اور تناؤ میں مبتلا کر سکتا ہے کیونکہ آپ اپنی غلط توقعات کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ کے غیرہمدردانہ، غیرپروقار اور برے روئیے کے باعث تناؤاورپریشانی پیدا نہیں ہوتی بلکہ آپ کی طرف سے ”چاہیے“ استعمال کرنے کے باعث پریشانی اور تناؤپیدا ہوتا ہے۔
”آداب اور طور طریقے“ بطور ”چاہیے“
”آداب اور طور طریقے“ منفی، بیکار اور بے مصرف معاشرتی اقدار اور روایات کی بہترین مثال ہے۔ ان تمام معمولی بے معنی اصول و قوانین کے متعلق غور کیجیے جنہیں اپنانے کے لیے آپ کو محض اس لیے کہا گیا کہ بڑے بڑے فلسفیوں اور عالموں نے یہ اصول و قوانین مرتب کیے ہیں۔ ”اپنا کھانا اس طرح کھایئے“ کھانا شروع کرنے سے قبل میزبان کا انتظار کیجیے، مرد کا خواتین سے تعارف کروایئے۔ کسی کی شادی کی تقریب میں شرکت کے موقع پر باادب اور خاموش ہو کر بیٹھئے، کھانے کے بعد بیرے کو بخشش دیجیے، یہ لباس پہنیے، یہ الفاظ استعمال کیجیے، اپنے آپ پر بھروسا مت کیجیے، کتاب سے مدد لیجیے۔ اگرچہ اچھے آداب و اندازواطوار یقینی طور پر مناسب ہیں لیکن ان کے باعث آپ اپنے آپ کے بجائے دوسروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ تقریباً 90 فیصد آداب و انداز واطوار محض بے معنی اصول و قوانین ہیں جو کسی مخصوص لمحے آپ پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ آپ کے لیے کوئی خاص وقت مناسب نہیں ہوتا لہٰذا آپ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو وہی وقت صحیح ہو تا ہے بشرطیکہ آپ دوسروں کے لیے مشکلات پیدا نہ کریں۔ آپ خود اپنے طور پر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آپ لوگوں کو تعارف کیسے کروائیں، آپ بیرے کو بخششیں کیا دیں، آپ کیا پہنیں، آپ کہاں اورکیسے بیٹھیں۔ جب کبھی بھی آپ ”مجھے کیا پہننا چاہیے“ یا ”مجھے یہ کام کیسے کرنا چاہیے۔“ پر مبنی رویہ اپناتے ہیں تو آپ اپنی شخصیت اور ذات کو دوسروں کے ہاتھ میں دے رہے ہوتے ہیں۔ میں آپ کو یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ معاشرتی روایات اور اقدار سے بغاوت کریں بلکہ آپ کویہ کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے روزمرہ معاملات زندگی میں دوسروں کی ہدایات اور احکامات کے بجائے اپنی خواہشات اورمرضی استعمال کریں۔ اپنے ساتھ مخلص ہونے سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے روزمرہ معمولات زندگی میں دوسروں کے دباؤ اور ہدایات سے آزاد ہو جائیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔