انسان نے اکثر بھیانک اور بہیمانہ اقدامات اصول و قوانین کی آڑ میں اٹھائے، عوامی مقامات پر تقریباً نصف قوانین بے معنی اور بیکار ہوتے ہیں 

  انسان نے اکثر بھیانک اور بہیمانہ اقدامات اصول و قوانین کی آڑ میں اٹھائے، ...
  انسان نے اکثر بھیانک اور بہیمانہ اقدامات اصول و قوانین کی آڑ میں اٹھائے، عوامی مقامات پر تقریباً نصف قوانین بے معنی اور بیکار ہوتے ہیں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:121
اصول و قوانین کی اندھادھند پیروی
اس دنیا کی تاریخ کے مطابق انسان نے اکثر بھیانک اور بہیمانہ اقدامات، اصول و قوانین کی آڑ میں اٹھائے۔ نازیوں نے6 ملین یہودیوں کو اس لیے قتل کر دیا کیونکہ یہ ایک ”قانون“ تھا اور اس قانون کی پیروی ماتحت افراد پر فرض تھی۔ بعد میں ان ظالمانہ اقدامات کی ذمہ داری صرف ہٹلر اور اس کے دست راست پر ڈالی گئی کیونکہ انہوں نے یہ حکم جاری کیا تھا۔
بعض ممالک میں جب لوگ ٹیکس کی رقم کسی غلط فہمی کی بناء پر زائد جمع کروا دیئے ہیں تو انہیں یہ رقم واپس نہیں کی جاتی کیونکہ قانون کہتا ہے کہ ٹیکس کے ضمن میں جو بھی رقم حکومت کے پاس جمع کروا دی جائے، اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ زائد رقم کی واپسی کے لیے جب متعلقہ حاکم کو درخواست دی جاتی ہے تو وہ کہتا ہے: ”میں اس ضمن میں کچھ مدد نہیں کر سکتا کیونکہ قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ جمع شدہ رقم واپس کر دی جائے میں تو صرف قانون پر عملدرآمد کر رہا ہوں۔“ مزیدبرآں آپ اپنی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگی میں یہ فقرہ بیشمار مرتبہ سنتے ہوں گے: ”تمہیں ہر قیمت پر اصول و قوانین کی پابندی کرنا ہو گی، میں اس کے متعلق مزید کچھ کہنا نہیں چاہتا۔“
تیراکی کے تالاب، کھیل کے میدان اور دیگر عوامی مقامات پر تقریباً نصف قوانین بے معنی اور بیکار ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ تیراکی کے تالاب کے کنارے کچھ نوجوان بیٹھے تھے اور اس وقت تالاب خالی بھی تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ تیراکی نہیں کر رہے تو انہوں نے جواب دیا کہ انتظامیہ کے مطابق یہ وقت بالغ افراد کے لیے مخصوص ہے۔ یہ ایک قانون تھا اور اس حقیقت کے باوجود اس وقت کوئی بھی بالغ فرد اسے استعمال نہیں کر رہا تھا۔ یہ قانون اپنی پوری توانائی کے ساتھ نافذالعمل تھا۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ قانون میں تبدیلی کے لیے کوشش کر سکتے ہیں لیکن مجھے انتظامیہ کی طرف سے پیغام وصول ہوا کہ آپ ہمارے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔
احکامات کی اندھادھند پیروی کی سب سے بہترین مثال فوجی ملازمت ہے جہاں قانون خواہ کتنا ہی احمقانہ کیوں نہ ہو، اس کی اندھادھند پیروی لازمی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں میرا ایک دوست اس اندازفکر کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتا ہے جو بہترین مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک افسر کی حیثیت سے اسے اعلیٰ حکام کی طرف سے ہدایات وصول ہوئیں کہ احکامات وقوانین خواہ کس قدر احمقانہ اور مبہم کیوں نہ ہوں، ان کی پابندی لازمی ہے۔ افسران کو فلم دیکھنے کے لیے سرخ چوبی نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت تھی۔ ایک دفعہ بارش ہو رہی تھی اورکچھ فوجی باہر کھڑے تھے لیکن وہ ان چوبی نشستوں پر نہیں بیٹھ رہے تھے۔ وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ صرف افسران کو ہی ان چوبی نشستوں پر بیٹھنے کی اجازت ہے۔ جب میرے دوست نے اس طرزعمل کی وجہ پوچھی تو اسے وہی گھسا پٹا جواب دیا گیا: 
”ہم قانون نہیں بناتے ہم تو صرف قانون نافذ کرتے ہیں۔“
اگر آپ کو ہمیشہ ہی تمام اصول و قوانین کی پابندی کرنی ہو تو آپ کی زندگی جذباتی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے لیکن ہمارا معاشرہ اور روایات واقدار ہمیں بتاتی ہیں کہ معاشرتی اصول و قوانین سے بغاوت ایک نہایت ہی برا فعل ہے اور آپ کو کوئی ایسا فعل انجام نہیں دینا چاہیے جو اصول وقوانین کے خلاف ہو۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اس امرکا تعین کر لیا جائے کہ کون سے قوانین آپ کے لیے کارآمد اور مؤثر ہیں جو معاشرے میں امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں اور یہ بھی ہے کہ وہ کون سے قوانین ہیں جن کی خلاف ورزی سے نہ آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور نہ دوسرے لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ محض بغاوت کی خاطر بغاوت ایک اچھا فعل نہیں ہے لیکن جب آپ بیکار اور بے مصرف معاشرتی اقدار اور روایات کو چھوڑ کر اپنے متعین کردہ اصول و قوانین اختیار کرتے ہیں تو آپ کو بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -