ہوسِ اقتدار کی رو میں آئین و قانون کے واضح اصولوں کو پامال کرنے کی بجائے ان پر عمل داری سے ملکی اور اجتماعی مفادات کو تحفظ ملتا ہے۔ ذاتی اغراض کے حصول کے لئے بھی متعلقہ قواعد و ضوابط کی بجا آوری ہر ذی شعور مرد و خاتون کی لازمی ذمہ داری ہے۔ قانون شکنی کو دلیری اور جرأت مندی سے تعبیر کرنا دور جاہلیت کی روایت ہے جس کو جلد از جلد خیر باد کہہ کر آگے بڑھنے میں ہی ہماری بھلائی اور بہتری ہے، اس کو جاری رکھنے سے ہم مختلف شعبہ زندگی کے امور میں نقصان اور خسارے سے دو چار ہوتے رہیں گے۔ لہٰذا ایسی احمقانہ روش ہم سب کو بلا تاخیر و تذبذب روکنے کی سعی کرنا ہو گی، تاکہ ہم اپنی ناکامیوں میں کچھ کمی کر سکیں۔ملکی سیاست کی تعمیر و ترقی کی میں اپنا کردار عوامی مفاد کے اہداف کے لئے قانون کی پاسداری کے تحت بروئے کار لانے سے مطلوبہ نتائج، مثبت انداز اور بلا خوف و خطر طے شدہ اوقات میں حاصل کئے جا سکتے ہیں جبکہ قوانین و ضوابط کی خلاف ورزی سے منصوبوں کے معیار و مقدار میں خامیاں پیدا ہونے سے متعلقہ حکام اور اداروں کی حتمی منظوری بلا شبہ خاصی مشکل اور اذیت ناک ہو سکتی ہے۔
ابھی چار ماہ قبل 8 فروری کو جمہوری نظام کے تحت ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد ان ایوانوں کے لئے عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر نمائندے منتخب ہوئے ہیں۔ یوں قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹوں کی حمایت سے شہباز شریف وزیر اعظم منتخب ہو کر عوام کی خدمت کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس طرح صوبائی اسمبلیوں میں بھی اکثریتی نمائندوں نے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کرنے کا عمل اپنی صلاحیتوں کے مطابق جاری رکھا ہوا ہے۔ اس بارے میں جو حضرات و خواتین اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں شکست سے دو چار ہوئے تھے ان کو اپنے اعتراضات متعلقہ عدالتوں سے رجوع کر کے حق رسی کی ہدایات دی گئی تھیں، تاکہ وہ ان قانونی اداروں میں ٹھوس وجوہ پر مبنی شکایات یا عذر داریاں دائر کر کے ان عدالتوں کے جج صاحبان کے روبرو، گواہان پیش کر کے اپنی انتخابی ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرنے کی کاوش کر سکیں۔
سم ظریفی یہ ہے کہ حالیہ انتخابی معرکہ آرائی میں اپوزیشن جماعتوں کے بعض امیدوار مذکورہ بالا انتخابات کے نتائج کو دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر جعلی اور من گھڑت قرار دے کر نشستوں کو حاصل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بصورت دیگر اپوزیشن رہنما مختلف صوبوں اور علاقوں میں احتجاجی تحریک شروع کر کے موجودہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں میں امن و امان کے مسائل پیدا کرنے کی تسلسل سے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وفاقی بجٹ حکومت نے بجٹ پیش کر دیا ہے، اس طرح صوبوں میں بھی چند روز کے وقفوں سے صوبائی بجٹ پیش کر دیئے گئے ہیں۔ یہ بجٹ منظور کرانے کے لئے متعلقہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اکثریتی اراکین کی حمایت درکار ہے تاکہ ان کی باضابطہ منظوری حاصل کر کے آئندہ مالی سال کے لئے نافذ کیا جائے۔ اس طرح موجودہ حالات میں ملک اور صوبوں میں کسی طرح کی بدامنی، احتجاجی تحریک اور تخریبی کارروائیوں کا ارتکاب کسی طور قابل برداشت تصور کرنا بہت مشکل ہوگا۔ کیونکہ احتجاجی مظاہروں سے امن و امان کے حالات خراب اور عام لوگوں کے معمولاتِ زندگی کے لئے کافی حد تک رخنہ اندازی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
ملک کی مخدوش معیشت کی بنا پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کے حالات پیدا کرنے سے بہر صورت اجتناب کرنا ہوگا، اگر انہوں نے اپنے مذکورہ بالا موقف اور عملی کارروائیوں میں قانون شکنی کے حربے اختیار کرنے پر اصرار جاری رکھا تو عین ممکن ہے کہ متعلقہ حکومتیں ان کے اس جارحانہ ارتکاب کو روکنے کے لئے قانونی اقدامات بروئے کار لانے کی کارروائیاں اپنائیں۔ تاہم حب الوطنی اور قانون کی پابندی اور احترام کے تقاضے یہ ہیں کہ سب لوگ بلا تفریق کسی سیاسی وفاداری، فرقہ پرستی اور علاقائی وابستگی، ملکی تعمیر و ترقی اور ابتر معاشی حالات کی بہتری کے لئے ہنگامی بنیادوں پر شب و روز اپنے فرائض اور ذمہ داریاں، خلوص نیت اور بھرپور محنت سے سرانجام دیں تاکہ ہمارے معاشی حالات مختصر عرصے میں اس قدر ثمر آور ہو سکیں کہ ہمیں معاشی خود انحصاری کا ممتاز مقام حاصل ہو جائے اور ہم موجودہ محتاج حالات کی کیفیت سے باہر نکل کر آزاد اور باوقار مقام حاصل کر سکیں، اس لئے اپوزیشن رہنماؤں کو حریف امیدواروں اور نمائندوں کو زیادہ تر نیچا دکھانے اور بدنام کرنے کی بیان بازی فوری ترک کر دینی چاہئے۔
یاد رہے کہ انتخابات میں ناکامی کا غصہ ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام سے محروم رکھنے کی کارروائیوں سے، سراسر جہالت اور حماقت کی روش ہے۔ تمام سیاسی رہنماؤں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں ملکی ترقی، خوش حالی اور نیک نامی کے لئے وقف کر دیں۔ یاد رکھیں کہ اس بارے میں ان کا ذاتی مفاد بہت کم اہمیت رکھتا ہے۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ پاکستان چند روز قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مطلوبہ حمایت سے آئندہ سال جنوری 2025ء سے عرصہ دو سال کے لئے سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہو گیا ہے۔ وطن عزیز کئی سال قبل بھی یہ اعزاز حاصل کر چکا ہے امید ہے اس نمائندگی سے پاکستان مظلوم لوگوں کے حقوق آزادی اور مشکلات کے خاتمہ کے لئے بین الاقوامی سطح پر اپنی کاوشیں بہتر انداز سے بروئے کار لا سکے گا۔ بالخصوص اہل کشمیر کو بھارتی تسلط اور فلسطینی لوگوں کو اسرائیل کے قتل عام سے نجات دلانے کے لئے پاکستان بہتر عزم و ہمت سے اپنا قائدانہ کردار ادا کر سکے گا۔ آخر میں سب نمائندوں اور رہنماؤں سے التماس ہے کہ وہ ملکی حالات کی بہتری اور ترقی کے لئے اپنا کردار اور ذمہ داریاں ممکنہ محنت اور دیانتداری سے پوری کریں۔