آخری حصہ
فضیلۃ الشیخ عبد الظاہر ابو سمح کو شاہ عبد العزیز نے اسی زمانے میں سعودی شہریت عطا کردی تھی۔ وہ قاری اور حافظ تھے۔ ادیب اور خطیب تھے‘آواز بہت پیاری تھی۔ لوگوں سے محبت کرتے تھے۔ عوام بھی ان کے گرویدہ تھے۔ خیر کے کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ شاہ عبد العزیز ان سے محبت کرتے تھے۔ ان کے اخراجات کے لیے معقول وظیفہ کا بندو بست کر رکھا تھا۔صفاء پہاڑی کے قرب وجوار میں دار ارقم بن ابی ارقم بڑا مشہور گھر ہے۔ اللہ کے رسول ﷺے مکہ مکرمہ میں اسی گھر کو اپنی دعوت کا مرکز بنایا تھا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے اسی گھر میں اسلام قبول کیا تھا۔ یہ گھر تاریخی اہمیت کا حامل اور بہت برکت والا تھا۔ شاہ عبد العزیز نے یہ گھر شیخ عبد الظاہر کو رہنے کے لیے دے دیا۔یہ شیخ کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں دار ارقم میں رہائش میسر ہوئی۔
حصہ ششم پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اسی زمانے میں انہیں مکہ مکرمہ میں دار الحدیث بنانے کا خیال آیا۔ ان کے سامنے ہدف یہ تھا کہ اس مہبط الوحی میں اللہ کے رسول ﷺکی احادیث اور دیگر شرعی علوم پڑھانے کا بندوبست کیا جائے۔چنانچہ انہوں نے شاہ عبدالعزیز طیب اللہ ثراہ کو خط لکھااور اس میں دار الحدیث بنانے کی منظوری طلب کی۔ شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے بڑی خوشی سے ان کو دار الحدیث بنانے کی اجازت دے دی۔چنانچہ اس وقت کی متعدد بڑی بڑی شخصیات دار الحدیث کی مجلس ادارت میں شامل ہوئیں جن میں عالم اسلام کی مشہور شخصیت علامہ عمر نصیف بھی تھے۔ان کے صاحبزادے عبد اللہ عمر نصیف مدتوں تک رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں۔اسلام کے لیے اس گھرانے کی خدمات بے شمار ہیں۔
شاہ عبد العزیز نے دار الحدیث کے اخراجات کے لیے سالانہ ایک معقول رقم متعین فرمائی۔ بیت اللہ کی امامت اور خطابت کے علاوہ شیخ عبد الظاہر مدرسہ دارالحدیث کے اٹھارہ سال تک مدیر رہے۔
ان کی وفات کے بعد ان کے برادر نسبتی شیخ محمد بن عبد الرزاق حمزہ دار الحدیث کے مدیر رہے۔ یہ وہ عظیم شخصیت تھے جنہوں نے سب سے پہلے بیت اللہ شریف میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا تھا۔ دار الحدیث اس وقت بھی علم کی روشنی پھیلانے میں اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے رئیس فخری شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ ابن باز تھے۔ آج کل اس کے رئیس مفتی اعظم سعودی عرب شیخ عبد العزیز آل الشیخ ہیں۔امام کعبہ الشیخ صالح بن حمید اس کے نائب رئیس ہیں۔
جہاں تک دارالحدیث کی عمارت کا تعلق ہے تو یہ ایک زمانے میں حرم مکی کے بالکل قرب و جواب میں تھی۔ راقم الحروف کو وہاں پر اس کے مدیر ڈاکٹر سلمان التویجری سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ پھر اس جگہ وقت ہوٹل بنا دیا گیا۔ جس کی آمدنی دارالحدیث پر خرچ ہوتی ہے۔
دارالحدیث کے لیے مکہ مکرمہ کے ایک محلہ العوالی میں وسیع قطعہ زمین خرید کر نئی عمارت بنا دی گئی ہے۔ میری دلی تمنا تھی کہ میرا بیٹا محمد مجاہد دارالحدیث میں علم حاصل کرے‘ پھر میری زندگی میں وہ دن بھی آیا جب میں ڈاکٹر سلیمان التویجری کے پاس بیٹھا اپنی خواہش کا اظہار کر رہا تھا کہ میرے بیٹے کو داخلہ دیا جائے۔ انٹری ٹیسٹ ہوا جسے اس نے بڑی آسانی سے پاس کر لیا۔ الحمدللہ! میرے بیٹے کو داخلہ مل گیا ہے۔ اسے کتب مل گئی ہیں‘ وہ اب وہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ دارالحدیث کا منہج بڑا قوی اور مضبوط ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محمد کو دین کی خدمت کے لیے قبول کر لے۔ یہ حروف لکھتے وقت اسے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہوئے کم و بیش دو ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ میری زندگی کی بہت ساری خواہشات میں ایک یہ خواہش بھی پوری ہو گئی ہے۔ قارئین کرام دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو استقامت نصیب فرمائے اور وہ وقت آئے جب وہ عالم دین بن کر وہاں سے نکلے۔ دارالحدیث کا مشن پون صدی پہلے شروع ہوا تھا۔ نجانے کتنے ہزاروں طلبہ عالم دین بن کر اس مادر علمی سے فارغ ہو کر عالم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ ختم شد
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔