پیپلز پارٹی کے سیئنر اور جہاندیدہ پارلیمنٹیرین خورشید شاہ نے ایک بار پھر بھڑک لگادی ہے اور کہا ہے کہ جس دن ہم پیچھے لگ گئے حکومت نہیں بچے گی ۔ان کے اس تازہ بیانئے کے دو معنی نکلتے ہیں ،کیا وہ کسی کے پیچھے لگ کر اسکے نقش پا پر چلتے ہوئے ہدایات پر عمل کریں گے یا پیچھے لگنے سے انکی مراد یہ ہے کہ وہ مزاحمت کی بجائے جارحانی قوت کے ساتھ حکومت کاتعاقب کرتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کو انجام تک پہنچا دیں گے ۔ان کے بیانئے کا حاصل کلام نکالا جائے تو دونوں طرح سے ہی وہ اپنا مقصد پورا بھی کرسکتے ہیں تاہم انہیں کسی کے پیچھے چلتے ہوئے ہی جارحانی قوت بھی حاصل کرنی ہوگی ۔اس کے لئے بیعت کرنا لازم ہے جیسا کہ وہ پہلے بھی اس سے مستفید ہوکر ایوان اقتدار تک پہنچ چکے اور سنگین ترین مقدمات سے بھی جان چھڑواچکے ہیں ۔میاں نواز شریف کی غلطیاں نقارہ بن کر ان کے لئے مفید رہ نمائی کرسکتی ہیں ۔سنا ہے اسکا انہیں چانس بھی دیا گیا تھا لیکن بوجودہ وہ ان آفرز کو قبول نہیں کرسکے ۔پیپلز پارٹی کے خون میں چومکھی لڑنے کاحوصلہ دوسری کئی سیاسی جماعتوں سے زیاہد پایا جاتا ہے ۔لہذا خورشید شاہ صاحب کے بیانئے کو نرم نہ لیا جائے ،اسکے پیچھے کافی گرمی اور آتش فشانی پائی جاتی ہے ۔
خورشید شاہ صاحب اس سے قبل عمران خان صاحب اور فواد چودھری کا ناطقہ بند کرنے کے لئے بھی دور کی کوڑیاں لاچکے ہیں ۔ان کے خیال میں وزیر اعظم عمران خان اور ڈکٹیٹر مشرف میں کوئی فرق نہیں رہا ۔وہ جمہوریت کا غلط استعمال کررہے ہیں جنیہوں نے جمہوری سوچ کو ختم کرنے کے لئے ایسی پالیسیاں بنا لیں کہ اب میڈیا انڈسٹری بھی خطرے میں پڑ چکی ہے اور کرپشن کے خلاف ان کا جہاد بھی پسند ناپسند پر مبنی ہوچکاہے جبکہ انکا ڈیم بنانے کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے پر تقاضا کرنا معیشت کو ڈبونے کے مترادف ہے ۔خورشید شاہ صاحب کی طرح دیگر اپوزیشن لیڈروں کا بھی نقطہ نظر ہے کہ عمراں خان کی یوٹرن پالیسیوں سے عدم استحکام بڑھے گا جو معاشی اور سماجی کے علاوہ خارجہ تعلقات پر بھی بدترین تاثر چھوڑے گا ۔گویا اپوزیشن کو وزیر اعظم عمران خان منتقم اور نابالغ دکھائی دے رہے ہیں حالانکہ دنیا اب ان کے ترانے پڑھ رہی اور قوم بھی ان کے حق میں یوٹرن لیکر انکے فیصلوں کو گہرائی سے دیکھنے لگ پڑی ہے ۔قوم جس مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بدترین ہیجان کا شکار تھی ،اسکا یوٹرن یقینی طور پر عمران خان صاحب کا مورال بلند کرنے کے لئے ناگزیر درجہ رکھتا ہے تاہم دیکھنا ہوگا کہ تحریک لبیک کی قیادت کو ایک ماہ تک نظر بند کرکے انہوں نے ملک کی سڑکوں اور کاروبار کو رواں رکھنے کاجو عزم کیا ہے ،وہ اس پر کتنے کاربند رہتے ہیں ۔ اس پر بھی انہوں نے یوٹرن لے لیا تو قوم ان سے بری طرح مایوس بھی ہوسکتی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان خود بھی اپوزیشن کے رویہ سے عاجز آئے لگتے ہیں ۔اسکا وہ اظہار بھی کرچکے ہیں کہ اپوزیشن نے وقت سے پہلے ان پر سخت تنقید کردی ہے ۔عمران خان صاحب کا یوں اپوزیشن پر معترض ہونا انکی زود حسی کی علامت ہے ۔انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ منتخب پارلیمنٹ ممبر کی حیثیت میں وہ پانچ سالہ دور سڑکوں پر اسی اپوزیشن کے خلاف گزارچکے ہیں جو اقتدار میں تھی اور وہ اپوزیشن میں تھے ۔اپوزیشن کے اعتراضات پر انہیں کڑھنے اور افسوس کی بجائے جمہوری سسٹم کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ معاشی اقتصادی منصوبوں پر تیز رفتاری سے پائیدار فیصلے کرنے چاہئیں ۔ تاہم انکے فیصلوں سے اگر ملک اور قوم کو کچھ اچھا ہوتا نظر آیا تو انکی حکومت گرانے والی ہر قوت کے خلاف یہ قوم خود بھی سد سکندری بن سکتی ہے ،ورنہ مانگے تانگے کی قیادت سے بننے والی حکومت میں پورس کے ہاتھی کچھ کم نہیں ۔ خورشید شاہ صاحب کو کہیں سے ذرا سی شہہ مل گئی تو پھر جانا ٹھہر جائے گا۔
۔
یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔