فیصلہ پھر یہ ہوا ،ظلم کے درباروں میں
آج پھر سچ کو چنا جائے گا دیواروں میں
خود مکینوں نے جلائے جو چراغوں سے چراغ
روشنی تب ہی بڑھی شہر کے بازاروں میں
سر برہنہ جو ہوئے شہر کے سب قد آور
پھر تو بونے ہی دِکھے قیمتی دستاروں میں
جب حقیقت میں حقیقت سے اٹھے گا پردہ
جان پڑ جائے گی تمثیل کے کرداروں میں
آج سلطانیِٔ جمہور کا سودا کرنے
لوگ بیٹھے ہیں پھر آئین کے بازاروں میں
دفترِ عدل میں ڈالی تھی جو سچ کی عرضی
دفن ہو جائے گی وہ جھوٹ کے انباروں میں
جو لگاتا تھا انا الحق کی صدا ، وہ منصور
آج شامل ہے ریاست کے گنہ گاروں میں
شام کی لاش سے جو سرخ لہو ٹپکے گا
صبح، شہ سرخی بنے گا کئی اخباروں میں
پیاس اب کیسے بجھے گی دلِ تشنہ کی عبیدؔ
ایک صحرا ہے یہ بارش کے طلب گاروں میں
کلام :عبید خان عبید