ایٹمی حملہ کے بعد کیسے بچا جائے؟ ایسی معلومات جن سے ہر کسی کو آگاہ ہونا چاہئے

Sep 25, 2018 | 02:32 PM

شاہد نذیر چودھری

سوشل میڈیا کا یہ احسان سونے میں تولے جانے کے قابل ہے کہ اس نے بہت کم عرصے میں صدیوں کی جہالت کومات دے دی ہے اور شعور و آگاہی کے بند دروازوں کو ہر خاص و عام پر کھول دیا ہے ۔دنیا میں کہیں بھی ذرا سا پتہ بھی کھڑکے ،سوشل میڈیا کے کان کھڑے ہوجاتے اور پھر اس کھڑاک کی ساری تفصیلات سامنے بھی آجاتی ہیں ،گویا آگاہی میں انسانوں کی بھلائی کا ایسا پہلو پوشیدہ ہے جس پر عمل کرکے ہر طرح کے نقصانات سے بچنے کی تدابیر کی جاسکتی ہیں ۔جیسا کہ ان دنوں پاکستان اور بھارت میں جنگ کی دھمکیوں کا سیزن شروع ہوگیا ہے تو یہ بات سبھی کے پیش نظر ہے کہ دونوں ملک ایٹمی قوتوں سے مالا مال ہیں ۔اپنی جیت کی خاطر کوئی بھی ملک سب سے پہلے ایٹمی بٹن دبا سکتا ہے یا اسکے میزائل اسکی سرحدوں میں ایٹمی تباہی پھیلا سکتے ہیں ۔یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ سنگین ترین حقیقت ہے کہ ناگا ساکی اور ہیروشیما کے بعد بغداد سے افغانستان تک ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کیا جاچکا ہے ۔نہ صرف مروجہ ایٹم بم بلکہ ڈرٹی بم کے نام سے چھوٹے ایٹم بموں کے حوالہ سے بھی یہ خطرہ ظاہر کیا جاچکا ہے کہ کئی ملکوں کی افواج کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں کے پاس بھی یہ بم موجود ہیں جو کسی بڑے جنگی خطرے میں انہیں استعمال کرسکتے ہیں ۔یا محض دہشت گردی کے لئے کسی بڑے شہر کو نشانہ بناسکتے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے پھیلنے والی تباہی اور تابکاری سے انسانوں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے ؟ یہ معمولی کام نہیں ۔اس میں جدید اور تیز ترین تعمیراتی انفراسٹرکچر کی ضرورت درپیش ہوگی لیکن دنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی رکھنے ولاے کتنے ملکوں میں اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے ایسی تربیت اور سازو سامان موجود ہے ؟ ایٹمی تابکاری سے کھلے مکانوں میں رہنے والے نہیں بچ پاتے ،جبکہ اس کے لئے دس فٹ سے زیادہ گہرے دوہری تہری دیواروں سے بنے محفوظ ترین تہہ خانوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں تک تابکاری نہ پہنچ سکے ۔اسکی تعمیر اور مکمل طور پر آگاہی سے کتنی قومیں آگاہ ہیں؟ یقینی طور پر پاکستان اور بھارت کی اقوام اس بارے میں بھرپور رہ نمائی سے محروم ہیں۔
مجھے یاد ہے اس حوالہ سے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر سلطان بشیر محمودجو کہ ایٹمی پروگرام کے اوّلین معماروں میں سے ہیں، انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب ”کیمیائی،بیکٹیریائی اور ایٹمی ہتھیاروں کی تباہی سے بچاﺅ کی حفاظتی تدابیر“ لکھ رکھی ہے جس کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔یہ موضوع پاکستان کی حد تک پہلا ایسا کام ہے جسے نصاب تعلیم کا حصہ بنادیناچاہئے تاکہ نسلوں تک ایٹمی تابکاری اور حملے سے بچاو کا طریقہ سب کو معلوم ہوتا رہے۔ ایسی جامع معلومات کی بنا پر بھاری تعداد میں انسانوں کو ہلاکت سے بچایا جاسکتا ہے اور اہم ترین بات یہ کہ گھروں کی تعمیر کے تصورات بھی تبدیل ہوجائیں گے ۔ہم ہمارے ہاں بلند ترین عمارتیں قائم کرنے کا جنون ہے اور اس انداز تعمیر کو سراہا جاتا ہے ،جبکہ ایٹمی جنگ میں بلند عمارتیں خش و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گیں البتہ زمین دوز عمارتوں میں زندگی محفوظ رہنے کا امکان زیادہ ہے ۔
جیسا کہ عرض کیا کہ سوشل میڈیا آگاہی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے تو زیر نظر موضوع کی مناسبت سے ان دنوں ایٹمی تباہ کاریوں سے بچاو کے لئے بھی ایسے معلوماتی مضمون گردش کررہے ہیں جن میں تابکاری سے بچنے کے طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔مجھے بھی وٹس ایپ میں ایسا معلوماتی مضمون ملا ہے جس کے مصنف کا تو علم نہیں البتہ یہ میسج اتنا جامع ہے کہ اسکو صدقہ جاریہ سمجھ کر آپ سے شئیر کیا جائے تو اسکے مصنف کو یقینی اسکا اجر نصیب ہوگا اور اسکا مقصد بھی پورا ہوگا ۔اس مضمون میں جو معلومات دی گئی ہیں ،آپ بھی انہیں پڑھیں اور اپنے احباب تک پہنچائیں تاکہ آگاہی کا سلسلہ جاری رہے ۔

مضمون نگار لکھتا ہے کہ آج کے دور میں انسان کو جس سب سے خوفناک غیر فطری آفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. وه ہے ایک ایٹمی حملہ.
اگر آپ کے شہر پر ایٹم بم گرا دیا جائے. تو بھی آپ زنده بچ سکتے ہیں. دنیا میں اس وقت 20000 کے قریب ایٹمی ہتھیار موجود ہیں.
جن ممالک میں ایٹمی حملے کا خطر سب سے زیاده ہے وه یہ ہیں،جنوبی کوریا،شمالی کوریا،پاکستان،انڈیا ،اسرائیل،ایران،اس کے علاوه روس و امریکہ بهی ایٹمی جنگ کا نشانہ بن سکتے ہیں.دارالحکومت، اہم فوجی چھا ونیاں، اہم شہر اور زیاده آبادی والے علاقے ایٹمی حملوں کا اولین نشانہ ہیں.
 ‏حالات پر نظر رکھیں 
ایٹمی حملہ جنگ میں ہمیشہ آخری آپشن ہوتا ہے. اپنے ملک اور بین الاقوامی معاملات سے خود کو باخبر رکھیں اور کسی جنگ کی صورت میں پیشگی تدابیر تیار رکھیں.
پناه گاه:
آپ ایٹمی حملے اور اس کے اثرات سے صرف اس صورت میں ہی بچ سکتے ہیں اگر آپ کے پاس ایک مضبوط اور محفوظ پناه گاه موجود ہو.بہترین پناه گاه زمین سے کم از کم 10 فٹ نیچے تہہ خانے کی صورت میں ہوگی. زمین پر  بھی پناه گاه بنائی جاسکتی ہے تاہم وه تابکاری کو مکمل طور پر نہیں روک سکے گی، زمین پر بنائی جانے والی پناه گاه عمارتی پتھروں سے بنائی جانی چاہیے اگر عام اینٹیں اور کنکریٹ کا استعمال کرنا ہوتو پهر اینٹوں کی ایک کے بجائے کم از کم 5 پرتیں لگائی جائیں.
سامان:
اپنی پناه گاه میں اتنا سامان ہمہ وقت سٹور رکهیں جو3,2 ہفتوں کے لیے کافی ہو،
سامان کی تفصیل:
‏1- ٹن پیک کھانا جس میں گوشت کا کوئی آئیٹم شامل نا ہو بلکہ سبزیاں ، پھل اور بینز وغیره ہوں تاکہ فوڈ پوائزننگ کی اضافی مصیبت سے بچا جاسکے.
‏2- ڈسٹلڈ یا منرل واٹر کی بوتلیں.
‏3-پانی کا ایک بڑا ٹینک جو نہانے وغیره کے کام آئے گا.
‏4- ایک ریڈیو.(آپ کا موبائل تابکاری کے پہلے جھٹکےے کے بعد ناکاره ہوجائے گا).
‏5-کپڑوں کا ایک اضافی جوڑا.
‏6- کتابیں، جو کئی دن زیر زمین گزارنے میں معاون ثابت ہونگی.
‏7- فرسٹ ایڈ کٹ.
‏8- ادویات جن میں بخار، سردرد، جسم درد کی گولیاں، سلیپنگ پلز
9-بیٹریز یا بجلی کا متبادل انتظام،ٹارچ،پوٹاشیم آئیوڈائیڈ کی گولیاں،‏(دھماکے کے اول دن استعمال کریں)پینسلین پوٹاشیم،سیفیٹک اینٹی-سیپٹک سپرے۔
اگر ایٹمی حملہ ہوجائے؟
کسی بھی حادثے یا حملے کی صورت میں زنده بچ جانے کا پہلا اصول اپنے ہوش و حواس کو قابو اور دماغ کو حاضر رکھنا ہے. ایٹمی حملہ ہونے ایک ایک سیکنڈ کے اندر اندر آپ کو ایک زوردار دھماکہ سنائی دے گا اور فورا "مشروم" کی شکل کا ایک کئی میل اونچا دھویں کا طوفان نظر آئے گا. فورا سمجھ جائیے  کہ یہ ایٹمی حملہ ہے.اب بچنے کی جدوجہد شروع کیجئے:
ایٹمی تباهی کے تین مراحل ہیں،ابتدائی دهماکہ.فال آوٹ،تابکار طوفان
اگر تو ایٹمی وار هیڈ آپ کی لوکیشن کے ڈیرڈھ میل کے اندر اندر گرایا گیا ہے تو فورا کلمه پڑھ لیں اور بیٹھے ہیں تو کھڑے ہوجائیں، اگلے تین سیکنڈز کے اندر اندر آپ کا وجود بھاپ بن کے اڑ جائے گا. اگر ایٹمی حملے کے لوکیشن سے ڈیرڈھ میل دور ہیں تو آپ بچ سکتے  ہیں.پہلا  دھماکہ سنائی دینے کے بعد آپ کے پاس زیاده سے زیاده 5 سیکنڈزہیں. دهماکے کی مخالف سمت میں کسی بھی ٹھوس چیز ، دیوار یا کسی گہری جگہ پہنچیں ، زمین پر الٹا لیٹ جائیں، اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھتے ہوئے کانوں کو ڈهانپ لیں اور ٹانگیں کراس کرلیں، اسی دوران آپ کو ایک اور زور دار دهماکہ سنائی دے گا جو کہ  پہلے دهماکے سے سوگنا زیاده طاقتور ہوگا اور شدید زلزلہ پیدا کرے گا. مبارک ہو! آپ ابتدائی دھماکے سے بچ نکلے.
دهماکہ سنائے دینے کے دو سے تین سیکنڈ اٹھ کھڑے ہوں اور اپنی پناه گاه کیطرف بھاگیں.
فال آوٹ:
پہلے دھماکے میں ناصرف سینکڑوں عمارات دهواں بن کے اڑ گئیں ، ان کا ملبہ اب بارش کی صورت میں برسے گا اور ساتھ ہی تابکاری سے بھرے "الفا پارٹیکلز" کی بارش  بھی شروع ہوجائے گی. دهماکے کی طرف ہرگز مت مڑکے دیکھیں. اور فال آوٹ میں گرتی چیزوں سے بچنے کی کوشس کریں.اگر آپ صحیح سلامت پناه گا تک  پہنچ گئے تو مبارک ہو! آپ فال آوٹ سے بچ نکلے.پناه گاه میں داخل ہوتے ہی ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنا سارا لباس اتار دیں کیونکہ فال آوٹ کے دوران یہ بڑی مقدار میں الفا پارٹیکلز چوس چکا ہوگا. اس کے بعد اگر آپ زخمی ہیں تو خود ابتدائی طبی امداد لیں اگر صحیح سلامت ہیں تو غسل کرلیں تاکہ فال آوٹ کے بچے کھچے اثرات سے ہرممکن حد تک بچا جاسکے.
اب زمین پر ہر طرف تابکاری کا طوفان ہے اور آپ کو پناه گاه میں کئی دن تک رہنا ہے.‏
یاد رکھیں:‏
‏1-کم سے کم کھائیں.‏‏2- جتنا ممکن ہوسکے سوکر وقت گزاریں.‏3- ریڈیو سنتے رہیں اور باهر کے حالات سے باخبر رہیں.‏4-اپنی ہمت بحال رکھیں.‏‎ ‏5- اگلے چند دن میں آپ ریڈیو ایکٹو سکنس کا شکار ہوسکتے ہیں جس میں آپ کو تیز بخار، گھٹن، الٹیاں ہوسکتی ہیں. اپنے پاس موجود ادویات کو استعمال کریں.دهماکے کے زیاده سے زیاده 5 دنوں بعد امدادی ٹیمیں اور فوجی دستے آپ کے علاقے میں  پہنچ جائیں گے.ریڈیو سنتے ر ہیں  جب آپ کو یقین هوجائے کے آپ کے علاقے میں امدادی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں تو باهر نکل کر قریب ترین امدادی کارکن سے فوری رابطہ کریں تاکہ آپ کو تابکاری کے علاقے سے فوری طور پر نکالا جاسکے.اگر تو کوئی امدادی ٹیم آپ تک نا پہنچ سکے تو بیس دن بعد پناه گاه سے نکلیں. اب تک تابکاری کا طوفان تھم چکا ہوگا.
زندگی کی طرف سفر........پناه گاه سے نکلتے ہی ممکن آپ کو پہلا احساس یہی ہو کہ لاکھوں میں سے صرف آپ ہی زنده بچے ہیں. اب جس قدر جلدی ممکن ہو علاقہ چھوڑدیں.

۔۔

ادارہ کا بلاگرز کے ذاتی نقطہ نظر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

مزیدخبریں