غذائی اجناس میں خود کفالت ہی دراصل معیشت کے استحکام کاسبب ہے۔ بنیادی طورپر ہمارا ملک زرعی ہے جس کی 85فیصد سے زائد آبادی زراعت پیشہ ہے۔ ہماری زمین زرخیز ہے۔ دریا، نہریں، ڈیم ، پہاڑ ہمارے ملک میں ہیں۔ سازگار موسم ہمیں نصیب ہے۔ ہمارا کسان محنتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہم کئی طرح کی غذائی اجناس بھارت ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ وغیرہ سے کثیر زرمبادلہ کے عوض منگواتے ہیں۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 4/5کروڑ ایکڑ سرکاری زمین بنجر اور غیر کاشت پڑی ہوئی ہے۔ ایسی زمین کی آبادکاری قرآن وسنت کی روشنی میں بلاتاخیر کرانی چاہئے۔ اسے بلاکاشت چھوڑنا سراسرظلم اور زیادتی ہے ۔ ایسی زمین کے مناسب مقدار کے قطعات مالکانہ حقوق کی بنیاد پر نوجوانوں میں تقسیم کردیئے جائیں۔ اس طرح سے ایک تو بے روزگاری میں کمی ہوگی دوسری طرف ملک غذائی اجناس میں نہ صرف خود کفیل ہوگا بلکہ وافر غلبہ برآمد بھی کر سکے گا۔ ہندوستان کی افتادہ زمین انگریزوں نے کالونائزیشن ایکٹ 1912کے تحت آباد کروائی تھیں۔ فوجیوں کے چک اور گریجوایٹ چک آچ بھی پنجاب میں موجود ہیں۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے زمین اور کھیتوں کو اپنی خاص حکمت سے پیدا کیا ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ یہ زمین اور کھیت آباد رہیں اور ان سے مخلوق کو نفع پہنچے۔ اگر لوگوں کو یہ پتا چل جائے کہ دنیا کی آبادکاری جس سے فائدہ اور آمدنی مقصود ہو اس کا اللہ کے ہاں کتنا ثواب ہے تو کبھی آبادکاری کے کام کو نہ چھوڑتے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر لوگ جانتے ہیں کہ آبادکاری کے کام کو چھوڑنے اور زمین کے بیکار پڑے رہنے سے کتنا گناہ ہوتا ہے تو وہ ہرگز اسے نہ چھوڑتے کہ زمین بے آباد اور بنجر پڑی رہے۔ علمائے اسلام کے ایک موثر طبقہ کے ترجمان نے بنجر اراضی کو آباد کرنے اور خلق خدا کے انتفاع کے لئے فراہم کرنے کو باعث اجر اور ثواب و بے آباد بنانے اور خلق خدا کے انتفاع کے لئے فراہم کرنے کو باعث اجر اور ثواب وبے آباد بنانے کو قابل گناہ جرم قرار دے دیا ہے تو یہ امر واضح ہوجانا چاہئے کہ وہ لوگ جو اس کار خیر میں مصروف ومشغول ہیں بلکہ انہوں نے اپنی اور اپنے متعلقین کی زندگی کو اس کار ثواب کے لئے وقف کررکھا ہے کس قدر عظیم اور قابل تکریم ہیں۔
جو کوئی زمین کا کوئی ایسا قطعہ رکھتا ہے کہ اس سے ہزار من غلہ سالانہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اگر اس کی کوتاہی کاہلی وسستی اور عمال کی بے توجہی سے ہزار من کی بجائے نوسومن غلہ اس زمین سے حاصل ہو اور اس کی وجہ سے سومن غلہ مخلوق کے حلق میں نہ پہنچ سکا تو قیامت کے دن اس کی وجہ سے اس سے سومن غلہ کی بازپرس ہوگی اور اسی کے برابر اس سے واپس مانگا جائے گا“۔ اگر کوئی شخص آباد وشاداب زمین کی بیکاری اور معطلی کا سبب بنتا ہے تو اسے اپنا مقام خود دیکھ لینا چاہئے۔ اورنگزیب عالمگیر کے ایک فرمان کا اقتباس یہاں نقل کیا جارہا ہے تاکہ زیر بحث موضوع کا مو¿قف مزید روشن اور واضح ہوجائے ۔ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کاشت کاروں کو مملکت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتے تھے۔ انہوں نے مرشد قلی خاں کی مددسے دکن کے پورے زرعی نظام کو بدل ڈالا اور کاشت کاروں کو بہت زیادہ سہولتیں فراہم کیں۔ بعد میں جب وہ شہنشاہ بنے تو کاشتکاری کے فروغ کے لئے بہت کچھ کیا۔ مالداری کے سوا باقی ہر محصول اٹھالیا اور آبادکاری میں بھی بہت زیادہ سہولتیں دیں۔ دراصل انہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ جب تک کاشت کاروں میں خوشحالی نہیں آئے گی اور یہ لوگ خوشی اور دلجمعی سے کام نہیں کریں گے۔ نہ تو ملک کی پیداوار بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی ملک کی مالی حالت اچھی ہوسکتی ہے۔ مال گزاری اور دوسرے سرکاری محصولوں کے ضمن میں ان کی حکمت عملی محمد ہاشم خاں صوبہ دار گجرات کے نام ایک فرمان سے ظاہر ہے، جس میں انہوں نے لکھا:
”ہندوستان کے اس کونے سے لے کر اس کونے تک اس وقت کے اور مستقبل کے عالموں پر لازم ہے کہ وہ صرف وہی محصول اور مالگزاری وصول کریں جو شریعت حقہ کی روسے جائز اور مستحسن ہے ۔ وہ شریعت کی مستند روایات کو اس باب مےں راہ بنائیں اور کسی دوسرے حکم کی پابندی نہ کریں۔ انہیں ہرسال نئے احکامات طلب نہیں کرنا چاہیںاور اپنی سستی اور تغافل کو دنیا اور آخرت میں شرم کا باعث سمجھنا چاہئے۔ کاشت کاروں اور مزارعین کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ ان کے معاملات میں تحقیقات کریں، اور ان کے حالات کو واقف جانیں اور ان کی یوں حوصلہ افزائی کریں کہ پیداوار میں اضافہ ہو اور وہ خوشی ومسرت پائیں۔ اس طبقے کے ساتھ محبت ، شفقت ، مہربانی اور عنایت کا مظاہرہ کریں۔ کیونکہ یہی اسباب پیداوار بڑھانے کا موجب ہیں۔ محبت اور شفقت سے کام لینے کے معنی یہ ہیں کہ رعایا سے متعینہ اور مقرر ہ لگان سے زیادہ ایک دھیلہ بھی نہ لیں۔ ہرسال کے شروع میں تم پر لازم ہے کہ تم اپنی رعایا سے متعلق ہرممکن اطلاع مہیا کرو۔ یہ جانو کہ ان میں سے کون لوگ زراعت میں مشغول ، مصروف ہیں اور کون توجہ سے کام نہیں کرتے۔ اگر انہیں کسی مدد کی ضرورت ہے تو ان پر توجہ کرو۔ انہیں مدددو۔ اور آئندہ مدد کے وعدے کرو۔ اور اگرجانوکہ وہ مناسب سہولتوں کے باوجود زراعت میں دلچسپی نہیں لیتے اور کھیت ویران کردیئے گئے ہیں تو انہیں ان کی غفلت پر تنبیہہ کرو اور ہرممکن طریقہ سے انہیں اس کام میں مصروف کرو اور اگر یہ کاشت کار محنتی بھی ہیں اور کام بھی کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس اس کے لئے سرمایہ نہیں تو انہیں سرکاری خزانہ سے تقاوی دواور جان لو یہ فرمان اس لئے دیا گیا ہے تاکہ ملکی پیداوار بڑھے اور ملک خوشحال ہو پھر۔
جہاں زمین بے آباد پڑی ہو اور اس کا کوئی مالک یا دعویدار نہ ہو۔ وہاں تم اپنی مرضی استعمال کرو، اور زمین ایسے لوگوں کو دو جو اچھی طرح کاشت کرسکیں اور لگان اتنا مقرر کرو۔ جسے وہ خوشی اور آسانی سے ادا کرسکیں اور جو شریعت کے قانون کے مطابق ہو۔ غیر مزروعہ زمین کاشت کے لئے جن لوگوں کو دو۔ انہیں مستقبل کی امیددلاﺅ اور انہیں پورا کرو۔ جہاں چاہ ٹھیک نہیں انہیں مرمت کراﺅ، جہاں نئے چاہان کی ضرورت ہے وہاں نئے کھدوانے کا بندوبست کرو۔ اور ایسا نتظام کرو کہ رعایا اور کاشت کاران سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں۔ ان کو اتنی پیداوار نصیب ہو کہ اپنا خرچ بھی نکالیں اور حکومت کا لگان بھی باآسانی ادا کرسکیں۔ جن کھیتوں میں پیداوار اچھی نہیں ہوتی ان کی قوت پیداوار بڑھانے کے لئے انتظام کرو، اور جہاں کہیں کاشتکار بددل ہو کر رقبہ چھوڑ گئے ہیں۔ ان کو واپس لاﺅ اور ان کے اطمینان کا سامان پیدا کرو۔ اور ان کے دل بڑھاﺅ۔“ اپنے کارندوں کو لکھو کہ تم گاﺅں گاﺅں اور قریہ قریہ جاکر معلوم کرو کہ کہیں مالیہ کے ضمن میں بے انصافی تو نہیں کی گئی اور کہیں مالیہ پیداواریاستطاعت سے زیادہ تو نہیں کیا گیا۔ یادرکھو عدل وانصاف اور لوگوں کی خوشحال ہمارا مقصود ہے ۔ اس کے علاوہ اگر کسی کاشتکار کے کھیت ظالموں اور جابروں نے ناحق دبا رکھے ہیں تو ان سے واپس لے کر اصل مستحق کو دلاﺅ۔ پھر اور کہیں آفات سماوی سے فصلوں کا نقصان ہوگیا ہو تو صحیح نقصان کا اندازہ کروا کر اس کی تلافی کرو۔ اس ضمن میں اپنے ماتحتوں کے ایسے بیانات ہرگز قبول نہ کرو، جس سے ان لوگوں سے بے انصافی کی گئی ہو“۔
حکومت پاکستان کو بھی چاہئے کہ اپنے ملک کی تمام سرکاری زمینوں کے پٹہ داروں کو مالکانہ حقوق عطا کردے تاکہ یہ لوگ عدالتوں کے چکر سے نکل کر پوری دلجمعی سے آبادکاری کے کام میں مصروف ہوکر ملک کو غذائی اجناس میں خود کفیل بناسکیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے ہر آنے والی حکومت شروع شروع میں اسے بے زمین لوگوں میں مفت تسیم کرنے کے بڑے دعوے اور اعلانات کرتی ہے۔ جب اسے پتا چلتا ہے کہ اس زمین کے ذریعے وہ کئی سیاسی فوائد حاصل کرسکتی ہے تو پھر فوراً ٹھنڈ پڑ جاتی ہے۔ بلکہ حکمرانوں کے اندر یہ خواہش پیدا ہوجاتی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اسے خود ہی ہڑپ کرلیں۔ حکومت نیک نیتی سے اس زمین کو بذریعہ نیلام عام فروخت کردے اور بیرونی ممالک میں پاکستانی لوگوں کو بھی خریداری میں شامل کرلیں تو کثیر رقم مل سکتی ہے۔ اس کی ساتھ ساتھ غذائی اجناس میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوسکے گا۔