کمرے میں ٹیچر زرینہ کی سسکیاں گونج رہی تھیں اور میں بے خودی سے سرشار ہوکر ہمک رہاتھا ،ایک انوکھا احساس میرے اندر بجلی کے کوندھوں کی طرح لپک جھپک رہا تھا ۔اس وقت مجھے اس بات کا احساس ہورہا تھا کہ میرے اندر کوئی اور وجود بھی اٹھکیلیاں کررہا ہے ،اسکی وحشت میرا سینہ پھاڑ رہی ہے اور یہ بات غلط نہیں تھی ۔اس کا بعد میں مجھے پتہ چلا لیکن میں اس وقت عقل سے محروم تھا،کالے علم کا تکبر میری رگوں میں خون بن کر دوڑرہا تھا ۔میں تو بچہ تھا ۔۔بے شک میرا گیان عام بچوں اور بڑوں سے زیادہ تھا لیکن جوانی کے تقاضے بچپن میں تو پورے نہیں ہوسکتے ناں۔
یہ کم ذات گنگو تھا جو میرے اندر شیطانیت کا کھیل رچا رہا تھا ۔میں آپ کو کیسے بتاوں کہ اس وقت ٹیچر زرینہ کی کیا حالت تھے۔وہ کیف و سرور میں مبتلا تھی ۔ اسے یہ فکر بھی نہیں رہی تھی کہ وہ اس وقت کلاس روم میں ہے۔سکول لگا ہواہے۔کوئی بھی اچانک کلاس میں آسکتا ہے ۔اسکی حالت بتا رہی تھی کہ اس وقت وہ کسی مقدس رشتے کے حصار میں نہیں تھی۔
نہ جانے کتنے سمے اس عالم میں سرک گئے ۔اچانک سکول کی بیل بجی ،یہ بریک ختم ہونے کا اعلان تھا ،یکایک گنگو ہانپتا ہوا بولا” ببر چھوڑ دے اب اسکو ،بچے کلاس میں آرہے ہیں“
میں نے جھٹ سے ٹیچر زرینہ سے الگ ہونا چاہا تو اس نے وارفتگی سے میرے بال مٹھیوں میں پکڑ لئے” نہیں بابر ابھی نہیں............“ اس پر ہنوز بے خودی طاری تھی۔
اس دوران بچے کلاس میں آچکے تھے ۔ان میں سے ایک بچہ بولا ” وہ دیکھو آج بابر کی بھی پٹائی ہورہی ہے “
دوسرے بچے بھی ہاہاہا کرنے لگے۔یہ دیکھ کر مجھے غصہ آیا اور میں نے ٹیچر زرینہ سے کہا ” ٹیچر میرے بال چھوڑیں“
یہ سنتے ہی اس نے مقناطیسی انداز میں بال چھوڑدئےے اور ہونقوں کی طرح آنکھیں پھاڑ کر مجھے دیکھنے لگی،اسکی سانس پھولی ہوئی تھی،سینے کے زیروبم بتا رہے تھے کہ خود کو سنبھال رہی ہے لیکن اس سے سنبھلا نہ گیا ،اسکے چہرے پر سرخی بہت زیادہ بڑھ گئی اور چکرا سی گئی۔اس نے سرجھٹکا اور پھر ذرا سی لڑکھڑا کر اپنی کرسی پر جاکر بیٹھ گئی....ہنوز حیرت و استعجاب سے مجھے تکے جارہی تھی،چند ہی لمحے بعد اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔گنگ سی بیٹھی رہی۔
بچے اسکی حالت دیکھ کر خاموش تھے ،اچانک دروازہ کھلا اور ہماری میتھ کی ٹیچر یاسمین اندر آگئی۔وہ موٹی اور ادھیڑ عمر کی خاتون تھی۔ٹیچر زرینہ اسکی آمد سے بے خبر تھی۔
”کیا بات ہے زرینہ طبیعت تو ٹھیک ہے“ٹیچر یاسمین نے اس کے پاس آکر پوچھا تووہ چونک اٹھی ۔
” ہاں ہاں میں ٹھیک ہوں “ ٹیچر زرینہ نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی اور خالی نظروں سے مجھے ایک بار دیکھنے کے بعد کلاس روم سے نکل گئی ۔
اگلے روز ٹیچر زرینہ سکول نہیں آئی۔میں بے چین ہوگیا ۔اس دن میرا دل پڑھنے کو نہیں چاہا ۔میں نے گنگو سے کہا” ٹیچر زرینہ نہیں آئی آج“
” ہاں یار مجھے بھی اسکا انتظار ہے ،یا بڑی میٹھی چیز ہے تیری ٹیچر“ اس نے کہا
” بڑی اچھی ٹیچر ہے ،مجھ سے بڑا پیار کرتی ہے“ میں نے کہا تو گنگو قہقہے لگانے لگا ۔
” اب تو وہ تیرے پیار میں دیوانی ہوجائے گی ببر ،تو اسکے پیار میں ابھی سے دیوانہ ہوچلا ہے “گنگو نے مجھے چٹکی کاٹی” باز آجا ، تیری عمر ابھی کیا ہے“
” تو کیا بکواس کررہا ہے ۔میں کوئی دیوانہ شوانہ نہیں ہوں “ میں نے اس کا ہاتھ پرے ہٹایا تو اچانک میرا ہاتھ بے خیالی سے ساتھ بیٹھے بچے کی ران پر جا لگا جو اس وقت پنسل کی مدد سے میتھ کی کاپی پر نوٹس لکھ رہا تھا ۔ہاتھ اتنے زور سے لگاتھا کہ پنسل کاپی میں کھب گئی اور کاغذ پھٹ گیا ۔اس نے مجھے دیکھا اور پھر اونچی آواز میں روتے ہوئے بولا۔
”ٹیچر یہ دیکھیں بابر نے میری کاپی پھاڑ دی ہے “
ٹیچر یاسمین غصہ سے بھبھناتی میرے پاس آئی،اس نے ہاتھ میں چھوٹی سی چھڑی پکڑی ہوئی تھی۔
” کیوں پھاڑی ہے کاپی“ ٹیچر نے چھڑی میری ٹھوڑی پر لگا کر بے رحمی سے میرا چہرہ اونچا کیا ۔
”جان بوجھ کر نہیں پھاڑی ، غلطی سے میرا ہاتھ لگ گیا تھا“ میں نے صاف گوئی سے بتایا۔
”نہیں ٹیچر اس نے جان بوجھ کر پھاڑی ہے “ بچہ گدھے کی طرح رونے لگاتو ٹیچر نے مجھے کھڑا ہونے کا حکم دیا ۔بچے سے معافی مانگنے اور اسکو نئی کاپی لاکردینے کی سزا سنا دی ۔پہلی بار مجھے شدید غصہ آیا اور اونچی آواز میں بولا ”میں کیوں مانگوں معافی ،میں نے کوئی غلطی نہیں کی “ میری آواز سن کر ٹیچر کو غصہ آگیا اور اس نے چھڑی میرے کاندھے پر ماری ،مجھے کافی درد ہوئی ۔” میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے اسکی کاپی نہیں پھاڑی ،آپ مجھے کیوں ماررہی ہیں“ اس بار میری آواز میں ایسی دہشت اور غراہٹ تھی کہ ٹیچر ایک لمحہ کے رک گئی۔میری آنکھوں سے جیسے آگ نکل رہی تھی۔میرا پورا بدن تپ گیا تھا ۔ پوری کلاس دبک گئی ۔میں نے ٹیچر کی طرف غصہ سے دیکھا اور اپنا بیگ اٹھا کر کلاس سے نکل آیا ۔
غصہ سے میرا برا حال تھا ،خون کھول رہا تھا ۔اس لمحہ گنگو میرے پاس آیا
” ببر غصہ نہیں کرنا “
”میں ٹیچر یاسمین کو سزا ددوں گا “ میں نے کہا تو ببر نے میرا کاندھا تھپکا ”نہیں۔ اسطرح تم ننگے ہوجاوگے“
” کیا بکواس کرتے ہو“میں نے اسے ڈانٹا۔
” یار مطلب کہ سب کو علم ہوجائے گا کہ تم مہاشکتی بچے ہو اور ایسا نہیں کرنا ۔چلو میں تمہارا غصہ اتارتا ہوں “ گنگو نے بڑی محبت سے میرا غصہ اتارا” چلو ٹیچر زرینہ کے گھر چلتے ہیں“
میں چونکا ” کیوں؟“
”پوچھتے ہیں آج وہ سکول کیوں نہیں آئیں “گنگو نے شرارت سے کہا اور میں نے چھٹی کے بعد ٹیچر زرینہ کے گھر جانے کا ارادہ کرلیا۔ٹیچر زرینہ کا خیال آتے ہی میرے دل کا غبار چھٹ گیا تھا ۔(جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں