جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر29
گنگو توحرام کاریوں میں بڑا ماہرتھا۔اس نے مجھے ایسے رام کیا تھا جیسے کوئی بچہ چاکلیٹ کے لالچ میں بڑوں کا کہا مان لیتا ہے۔میں تو عمر کے اعتبار سے تھا بھی بچہ ۔۔۔لیکن گنگو کے تنتروں اور چلتروں نے مجھے خود سے بیگانہ کررکھا تھا ۔میں اسکی ہوس کا اسیر ہوگیا تھا ۔
آدھے گھنٹے بعد ہم ٹیچر زرینہ کے محلے میں پہنچ گئے تھے ۔ ٹھیک سے پتہ نہیں تھا کہ ان کا گھر کدھر ہے ۔’’ گنگو ٹیچر کا گھر کون سا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا ۔
وہ کھی کھی کرکے ہنس دیا ’’ ببر کیا بچوں والی بات کررہا ہے ۔‘‘
’’ میں بچہ ہوں تو بچوں والی باتیں ہی کروں گا ناں‘‘ میں نے جھٹ سے کہا ۔
’’ تو بچہ ہے؟‘‘ اس نے میرے کاندھے پر بیٹھے بیٹھے میرے کانوں کی لویں پکڑیں’’ اب تو بچہ نہیں رہا میرے یار ‘‘
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔قسط نمبر28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’سکول سے نکلنے سے پہلے کسی سے پوچھ ہی لیتے کہ اس کے گھر کا نمبر کون سا ہے ‘‘ میں اس پر خفا ہوا ۔اس دوران مجھے ایک سبزی کی ریڑھی والا نظر آیا’’ اوئے اس سے پوچھ لے ٹیچر زرینہ کا گھر کون سا ہے‘‘ میں نے گنگو سے سرگوشی کی ۔
’’ تو پاگل ہے ۔ ٹیچر زرینہ کے گھر کا پتہ کسی سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ گنگو نے ناگواری سے جواب دیا’’ میں ہوں ناں ،ابھی خود معلوم کرلیتا ہوں‘‘
’’ تو کیسے پتہ کرے گا ؟‘‘ میں نے کتابوں سے لدا ہوبیگ سڑک کے کنارے رکھا اور ہانپتے ہوئے کہا’’ میں یہ بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گیا ہوں ۔اگر تجھے پتہ ہے تو جلدی سے بتا ٹیچر زرینہ کا گھر کون سا ہے‘‘ میں نے تھکن اور بے تابی سے کہا۔میں حیران تھا کہ میں پہلے تو کبھی بیگ اٹھائے رکھنے سے نہیں تھکتا تھا لیکن آج ایک کلومیٹر کے علاقہ میں گھومتے رہنے سے میں تھک گیا تھا ۔اور میرا دل ابھی تک عجیب انداز میں دھک دھک کررہا تھا ۔میں نے غور کیا ،یہ کیفیت اور ہیجان کل سے تھا،اس وقت سے جب سے میں ٹیچر زرینہ سے جدا ہوا تھا۔
میں اپنے بیگ پر بیٹھ گیا ، گنگو تیز سیٹی جیسی آواز میں بولا ’’ تو اب پسار کر بیٹھے رہو،میں ابھی گیا اور بھی آیا‘‘
’’ کہاں جارہے ہو؟‘‘میں نے کہا’’ میں بھی ساتھ چلتا ہوں ‘‘
’’ تو کیسے جائے گا،میں تو ہوا ہوں اور تو جیتا جاگتا گوشت اور ہڈیوں کا منش ‘‘ اس کی بات میں سمجھ گیا ۔اب اتنی تو مجھے سمجھ آچکی تھی کہ اس شیطانی مخلوق کو آنے جانے میں انسانوں جیسی کوفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
میں بیگ پر بیٹھا گنگو کا انتظار کرنے لگا اور مجھے ایک ایک لمحہ بھاری لگنے لگا۔یونہی کئی منٹ گزرگئے تو سامنے گھر کا دروازہ کھلا اور ایک پٹھان نما شخص باہر نکلا ۔اس نے مشتبہ انداز میں گلی کے دائیں بائیں دیکھا اور پھر میرے پاس آکر بولا’’ کیا ہوا بچے ۔راستہ بھول گئے ہو‘‘
میں نے اسکی باتوں کا جواب نہیں دیا ،خاموشی سے اسکا منہ تکنے لگا،باریک نوکدار مونچھیں،لب موٹے آنکھوں کی طرح کالے اور موٹے ،آنکھوں میں سرمہ اور لالی نے اسکے چہرے پر خباثت سی بھر رکھی تھی۔سر پر چھوٹی سی ٹوپی تھی۔شانوں پر بھورے رنگ کی بھاری سی چادر ۔
’’ تم اس گلی میں تو نہیں رہتے ،کہاں جانا ہے ،لگتا ہے تھک گئے ہو۔‘‘ اس نے مخمور نظروں سے پوچھا لیکن میں ٹکٹی باندھے اسے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اسے کیا جواب دوں ۔لیکن پھر یہ سوچ کر گنگو ابھی تک واپس نہیں آیا ،میں اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ ٹیچر زرینہ کا گھر کون سا ہے ۔
’’ میں نے ٹیچر زرینہ کے گھر جانا ہے،ان کا گھر کونسا ہے ‘‘میں نے کہا
’’ کون ٹیچر زرینہ ؟‘‘ اس نے سوال کیا ’’ ادھرتو کوئی ٹیچر زرینہ نہیں رہتی‘‘ اسکی بات سن کر میں چونکا کہ ہم غلط محلے میں آگئے ہیں۔
’’ نہیں تو وہ اسی محلے میں رہتی ہے۔‘‘ میں نے پورے تیقن سے کہا تو اچانک اس نے منہ کھولا اور ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولا’’ اچھا اچھا تم زرینہ بی بی کی بات کررہے ہو۔واہ ۔میں بھی کتنا پاگل ہوں۔وہ دیکھو ،زرینہ بی بی ادھر رہتی ہے‘‘ اس نے جس گھر کی جانب اشارہ کیا تھا ،وہ پٹھان اسی سے نکل کر آیا تھا ۔اس نے اپنا ہاتھ بڑی بے تکلفی سے میری جانب بڑھایا ’’ لاؤ بیگ مجھے پکڑا دو اور آؤ میرے ساتھ ‘‘ میں نے بیگ اسے تھما دیا اور وہ مجھے سامنے والے گھر میں لے گیا ۔
یہ گھر ایک کینال تک پھیلا ہوا تھا،گیراج میں نئی گاڑی کھڑی تھی۔لان میں چھوٹے چھوٹے پودے اگے ہوئے تھے ،گیٹ کی دائیں جانب اینٹوں کا بنا ہوا ایک بڑا گھروندہ نظر آیا۔اچانک اس میں سے ایک بل ڈاگ باہر آیا اور ہانپتا ہوا میری جانب دیکھنے لگا،اسکے گلے میں موٹا سا سنگل تھا ۔بل ڈاگ نے مجھے دیکھتے ہی سنگل کو کھینچااوردہشت ناک آواز میں بھونکنے لگا۔
’’ ٹائیگر چپ کرجا،یہ تو بچہ ہے ‘‘ پٹھان نے بل ڈاگ کو ڈانٹا تو وہ اچانک خاموش ہوگیا لیکن اس نے اپنی خونخوار نظریں مجھ پرہی جمائے رکھیں۔
پٹھان مجھے اندر لاونج میں لے گیا اور اونچی آواز میں بولا ’’ زرینہ بی بی دیکھو کون آیا ہے‘‘
’’جی خان بابا میں آئی ‘‘ اس آواز کے چند لمحے بعد ہی ایک سانولی سی عورت ٹی وی لانج میں آئی تو میں نے جھٹ سے کہا’’ نہیں ،یہ میری ٹیچر زرینہ نہیں ہے ‘‘
’’ چلو کوئی بات نہیں ،ٹیچر نہ سہی زرینہ تو ہے ناں ‘‘ اس نے عورت کو مخاطب کیا ’’ بچے کو پیاس لگی ہے اسکے لئے شربت بنا کر لاو۔‘‘
اس نے فوری تعمیل کی اور میرے لئے لال شربت لے آئی۔اس نے گلاس مجھے تھمایا ،مجھے واقعی اس وقت کافی پیاس محسوس ہورہی تھی۔میرے اندر جیسے کوئی تنور جل رہا تھا ۔غٹاغت شربت پی گیا۔بڑا میٹھا شربت تھا ۔میں نے خالی گلاس عورت کو تھمادیا تو اس نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جس میں خوف تھا ۔مجھے اتنی عقل کہاں تھی کہ میں غور کرتا کہ وہ مجھے شربت پلانے کے بعد خوف کا شکار کیوں ہوئی تھی۔
اچانک مجھے پورا کمرہ گھومتا ہوادکھائی دیا۔اس سے پہلے مجھے کچھ سمجھ آتی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں گہری نیند کی سیاہ وادیوں میں کھو گیا ۔
مجھے آج بھی واقعہ یاد ہے۔میں اسے کیسے بھول سکتا ہوں ۔میری جب آنکھیں کھلیں تو اس وقت گنگو کی کانپتی آوازمیرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔’’ ببر اٹھ جا میرے یار ،یار اٹھ جا ‘‘
میں کسمسایا ،اٹھنے کی کوشش کی تو میرے ہوش اڑ گئے ۔میں مادر زاد ننگا تھا ۔تن پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا ۔میں ہڑبڑایا اور بستر سے اٹھنا چاہا تو میرے ہاتھ بستر پرپڑے،بستر گیلا تھا،ہاتھ اٹھا کر دیکھا تو اس پر خون لگا ہوا تھا ،میں نے فوری بستر سے نیچے اترنا چاہا تو لگا میرا بستر سے آسانی سے اترنا مشکل ہے،میرے نچلے حصے میں شدید درد ہورہی تھی ۔
’’ اٹھ میرے یار اور دیکھ میں نے اس حرامزادے کے ساتھ کیا کیا ہے ‘‘ گنگو نے اشارہ کیا تو میں نے بستر کی دوسری جانب دیکھا۔پٹھان مادر زاد اوندھے منہ پڑا تھا اور اسکی پشت سے خون نکل رہا تھا ۔
’’ مجھے درد ہورہی ہے گنگو ۔کیا ہوا ہے ‘‘ میں نے روہانسو ہوکر پوچھا ۔
’’ اس بدکار نے تیرے ساتھ منہ کالا کیا ہے‘‘ اس نے غصے سے دانت کچکچاتے ہوئے’’ میں نے اسکو وہ سزا دی ہے کہ اب ساری عمر اپنی مردانگی ڈھونڈتا پھرے گا اور یہ اسکو نہیں ملے گی‘‘
میں بڑی مشکل سے اٹھا،تکلیف اور اس حالت کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔میں نے بے بسی سے کپڑے پہنے اور گنگو سے معصومیت سے پوچھا ’’ بدکاری کیا ہوتی ہے ؟‘‘
اس زمانے میں میں نے ایسے لفظ سنے بھی نہیں تھے ۔مجھے فوری سمجھ نہیں آسکی تھی کہ وہ حرامزادہ پٹھان مجھ سے بدفعلی کا مزہ لیتا رہا تھا۔میں تو بے ہوش تھا۔ا سنے میرے جسم کو بل ڈاگ کی طرح بھنبھوڑ ڈالا تھا ۔
میں نے کمرے سے نکلنے کی کوشش کی تو مجھ سے چلنا مشکل ہوگیا۔’’بڑا درد ہورہا ہے‘‘
’’ تو ادھر ہی بیٹھ میں اس کو زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘میری بات سنتے ہی گنگونے زخمی پٹھان کو سیدھا کیا اور پھر دھوان بن کر اسکے نتھنوں میں گھس گیا ۔اور کانوں سے باہر نکل آیا ۔
’’ اب یہ خارشی کتوں کی طرح سڑکوں پر بھونکتا پھرے گا ۔ساری زندگی کپڑے نہ پہن سکے گا ‘‘ اس نے میرا ہاتھ تھاما اور سسک کر بولا ’’ میں تجھ سے شرمندہ ہوں میرے بھائی،میں ابھی تیرا علاج کردیتا ہوں ‘‘ یہ کہہ کر اسنے میری ناف پر اپنی چھوٹی سی نوکیلی انگلیاں رکھیں اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہوا میں تحلیل ہوکر میری ناف کی گہرائیوں میں اتر گیا اور چند ہی لمحوں بعد دوبارہ باہر آگیا۔اور اپنی شکل میں آتے ہی وہ میرے کاندھے پربیٹھ گیا ۔’’ اب کیسا محسوس ہوتا ہے‘‘ میں نے قدم اٹھایا تو بالکل نارمل لگا۔میرے بدن کا درد جاتا رہا تھا ۔یوں لگا جیسے مجھے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ لیکن میں اس حرامی کو بھول نہیں سکتا تھا۔جب ہم نیچے آئے تو زرینہ بی بی دکھائی نہ دی البتہ جونہی میں پورچ میں پہنچا بل ڈاگ بے قراری اور خونخواری سے ایسا غراکر بھونکنے لگا جیسے اس پر آفتیں ٹوٹ پڑی ہوں۔
’’ تیری زبان بھی بند کرتا ہوں‘‘ گنگو غرایا’’ یہ لو ببر کتے کے سامنے اسکو پھینک دو‘‘اس نے مجھے گوشت کا ٹکڑا دیا اور میں نے جونہی کتے کی طرف اچھالا ، اس نے اچھل کو اسکو منہ میں جھپٹ لیااور ایک ہی لقمے میں نگل گیا۔گوشت کا ٹکڑا کھانے کے باوجود وہ بھونکنے لگا لیکن اب اس میں وہ تیزی نہیں تھی بلکہ وہ خوف سے سہمی آواز میں غرانے لگا اور پچھلے قدموں ہٹنے لگا۔جب تک ہم باہر نکلے اسکی غراہٹ بند ہوچکی ۔‘آخری ہچکی لیکر وہ پرلوک سدھار گیا تھا ۔
’’ تم کہاں مرگئے تھے ‘‘ باہر نکلتے میں گنگو پرناراض ہوا ’’ اگر وہ مجھے مار ہی دیتا تو‘‘۔
’’ کیسے ماردیتا تجھے ۔میں اسکے سارے خاندان کو ختم نہ کردیتا‘‘ گنگو نے تیزی سے کہا اور بتایا ’’ اصل میں جب میں ٹیچر زرینہ کی خوشبو سونگھتا ہوا اسکی پرچھائیوں کے سنگ اس تک پہنچا تو وہ غسل خانے میں نہارہی تھی اور میں ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
’’لعنت ہے تجھ پر گنگو ،تجھے شرم نہیں آئی‘‘ میں نے اسکی بات کاٹتے ہوئے کہا ’’ اگر ٹیچر کو پتہ چل جاتا تو‘‘
’’ واہ یار تو بھی کتنا پاگل ہے،بھلا کوئی ہوا کو بھی دیکھ سکتا ہے‘‘ اسنے ہلکا سا قہقہہ لگایا’’ تو جان جائے گا بہت جلد میرے یار کہ میں جہاں کسی ناری کو دیکھتا ہوں میرے من میں اگنی جل اٹھتی ہے،رالیں منہ سے ٹپکنے لگتی ہیں۔‘‘
گنگو ایسا ہی تھا۔وہ مجھے ٹیچر زرینہ کے گھر تک لے گیا ۔میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا . میں نے اسے بتایا کہ میں ٹیچر زرینہ کا شاگرد ہوں اور اس سے ملنے آیا ہوں۔اس دوران اندر سے ٹیچر زرینہ کی آواز آئی ’’ ماما کون ہے ؟‘‘
’’ تیرے سکول سے یہ بچہ آیا ہے ۔۔۔‘‘ وہ ٹیچر زرینہ کی والدہ تھی۔ابھی تک میں دروازے سے باہر ہی کھڑا تھا ۔
’’ کون آیا ہے ۔۔۔‘‘ اس وقت ٹیچر زرینہ بھی باہر آگئی، دوپٹہ اسکے سینے پر تھا، بال گیلے تھے ،چہرے کا انگوری رنگ کھلا ہوا تھا۔مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ چونک سی گئی۔حیرت سے مجھے دیکھا،ہلکا سا گھبرائی لیکن پھر اسکے چہرے پر ایسی مسکراہٹ رینگنے لگی جس میں عورتوں کی آشائیں بھری ہوتی ہیں۔(جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر30 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں