جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر30
دہلیز پار کرتے ہوئے میرے من میں جوالا بے قراری سے اینٹھنے لگا تھا۔ٹیچر زرینہ نے میرا ہاتھ پیار سے تھام لیا۔اسکی ماں نے بڑی محبت بھری نظروں سے میری جانب دیکھا۔ میرے گالوں پر پیار کرتے ہوئے کہا ’’ ماشاللہ کتنا پیارا بچہ ہے ‘‘ انہیں کیا معلوم جسے وہ بچہ کہہ رہی ہیں وہ کن پاپیوں کے گھن لیکر پیدا ہوا ہے ۔اسکی معصومیت کے پردے میں کتنا بڑا شیطان اٹھکیلیاں مارتاہے ۔
ٹیچر زرینہ بولی’’ جی اماں ،بڑا پیارا بچہ ہے ‘‘ اس نے میرا ہاتھ دبا کر اپنی ماں سے کہا تو مجھے اس وقت تک قطعی معلوم نہیں تھا کہ جب کوئی عورت کسی کا ہاتھ فرط جذبات میں دباتی ہے تو اس کے من میں کیا ہوتا ہے۔
’’ ہاں یاد آیا ۔میں نے بازار جانا تھا بیٹی ۔تیری طبعیت کی وجہ سے نہیں جا رہی تھی۔اب تیرا سٹوڈنٹ آگیا ہے تو میں ذرا بازار سے ہوآوں ‘‘
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر29 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ٹیچر زرینہ نے جھٹ کہا’’ ہاں ہاں کیوں نہیں امی جان ‘‘ اس نے مجھے اپنے پہلو سے لگا کر مان سے کہا’’ میں بابر سے باتیں بھی کروں گی اور اس کو پڑھا بھی دوں گی۔کیوں بابر پڑھنا ہے ناں ‘‘ اسکی آنکھوں کی چمک میں شرارت کا ناسور پھیلا ہوا تھا ۔
کچھ دیر بعد ٹیچر زرینہ کی ماں نے اپنا بیگ اٹھایا اور بازار چلی گئی ۔ہم دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے ۔ٹیچر زرینہ نے پوچھا ’’اب کہو کس لئے آئے ہو ‘‘
’’ پتہ نہیں‘‘ یکایک میرے منہ سے نکلا تو گنگو حرامی میرے کان کے پاس منمنایا ’’ یہ کیا گجب کرتے ہو ببر،کہو میں ترے لئے آیا ہوں سندریا‘‘
ٹیچر زرینہ کھلا کر ہنسی اور اس نے اپنے گیلے بالوں کو انگلیوں سے کھولا اور پھیلا کر اپنے کاندھوں پر بکھیر لئے،اس نے چوڑی دار سفید پاجامہ پہنا ہوا تھا،نیلا تنگ کڑہائی دار کرتہ اسکی دلکشی اور شباب کودوآتشہ کررہا تھا۔ اس نے ٹانگ پر ٹانگ جمائی اور کہنی ٹانگ پر رکھ کر ٹھوڑی اس پر ٹکائی ، مخمور گہری نظروں سے دیکھا ’’ اچھا تو تجھے معلوم نہیں بابر کہ تم مجھ سے ملنے کیوں آئے ہو؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا ،گنگو نے مجھے چٹکی کاٹ کھائی ’’ بول ناں ‘‘
میں نے بے ارادہ اپنا کندھا اچکا کر گویا اپنے تئیں گنگو کوجھٹکا تھا ۔’’کیوں کیا ہوا ؟‘‘گنگو تیزی سے بولا ۔
’’ زبان بند کر‘‘ میں نے اسے ڈانٹا
’’خاموش کیوں ہوگئے بابر ۔۔۔‘‘ ٹیچرزرینہ کے سامنے یکایک جیسے میری زبان بند ہوگئی تھی۔میں نے آنکھیں نیچی کرلیں ۔
’’ اوہو۔۔۔ اب شرم آرہی ہے میرے ننھے ہیرو کو ‘‘ ٹیچر زرینہ ہنسی اور بولی ’’ ادھر آو میرے پاس ‘‘ اس نے مجھے اشارہ کیا۔
میں لمحہ بھر کے لئے جیسے مبہوت ہوگیا تھا ۔
اس ثانیہ میں گنگو بے تابی سے چیخا ’’ ببر تجھے کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔اٹھ اور سندری چھیلا کے ساتھ چپک کر بیٹھ جا ‘‘
’’ گنگو مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں اسے کیا کہوں ‘‘ میں نے اسے اپنی غیر متوقع حالت کے بارے میں بتایا ۔۔۔
’’ اوہ میرے پربھو ،میں سمجھ گیا تو ٹھنڈا پڑگیا ہے ‘‘ یہ کہہ وہ خبیث میری سانسوں سے اترتا ہوا میری ناف تک پہنچا اور کسی ناگ کی طرح کنڈلی مار کر بیٹھ گیا ۔’’ میں گیان لینے لگا ہوں ‘‘ اس نے کہا ’’ ذرا سانس بند رکھنا ،آنکھیں بھی بند کرلو‘‘
میں نے آنکھیں بند کیں اور وہ میرے حواس میں کسی گہری گرم دھند کی طرح پھیلتا چلا گیا ۔مجھے لگا کہ میرے پورے بدن میں کوئی شے بے تابی سے گردش کررہی ہے۔
معاً میرے کانوں میں ٹیچر زرینہ کی آواز پڑی ’’ اوہ میرے خدایا ،یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ‘‘ مجھے احساس ہوا کہ ٹیچر زرینہ بالکل میرے پاس موجود تھی،اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولی’’ اتنی شرم آرہی ہے تمہیں آج ۔کل تو مجھے تو نے پاگل کردیا تھا شکتی مان ۔میں ابھی تک بے کل ہوں ،مجھے ابھی تک تیرا لمس مارے جارہا ہے ۔نہ جانے تمہارے اندر ایسی کیا بات ہے بابر کہ میں تیرے سامنے ہار گئی ۔مجھے تو لگا جیسے تو بچہ نہیں اور شعلہ جوان مرد ہے،ساری رات میں تیرے خیالوں میں رہی۔ ‘‘
میں نے آنکھیں کھول دیں ،مجھے اپنی سانسوں میں تپش محسوس ہونے لگی۔ٹیچر زرینہ کا بدن مہک رہا تھا،میں اسکی مہک میں جیسے گھل گیا ۔
وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔یہ گنگو تھا یا میں ، میں تھا یا گنگو ،جو بھی تھا اس نے ٹیچر زرینہ کو اسکی دنیا بھلا کررکھ دی تھی۔یونہی ایک گھنٹہ بیت گیا ۔ٹیچر زرینہ بڑی خوش تھی۔اسکا چہرہ گلنار ہوگیا تھا۔آنکھوں میں مخمور انہ چمک تھی،آواز میں شدت جذبات کی گھمبیرتااور سکون تھا ۔
اپنے پہلو میں لیٹا کر بولی’’ اے کاش امی سے کہتی کہ ہمارے لئے پیزہ ہی لے آتیں ۔اپنے ہاتھوں سے اپنے بابرکو پیزہ کھلاتی ۔کیوں بابر پیزہ کھاو گے‘‘
میں نے اقرار میں سر ہلایا ۔اس سمے گنگو بولا ’’ یہ کیا مشکل ہے،پیزہ ابھی منگوالیتے ہیں‘‘
’’ کہاں سے تو منگوائے گا‘‘ میں نے کہا
’’ اسکی ماں لیکر آوے گی ‘‘ اس نے کہا ’’ تو ذرا دم لے میں اسکی ماں کو پیزہ کی پیٹی پڑھا کر آتا ہوں ‘‘
گنگو کے جاتے ہی میں نے کہا’’ ٹیچر آپ کو پیزہ بہت پسند ہے‘‘
’’ ہاں ،بہت زیادہ پسند ہے ‘‘ اس نے میری گالوں پر ہاتھ پھیرا’’ پیزہ بالکل تیری گالوں جیسا ہے ‘‘اس نے کچھ اسطرح چہک کر کہا جیسے اسکے سامنے ایک جوان رعنا محبوب پڑا ہو اور اپنے دلربا اندازوں سے اسکا دل موہ رہی ہو۔
ہم اسیطرح چھیڑ چھاڑ میں مخمور تھے کہ گنگو آگیا،مجھے مصروف دیکھ کر بھڑک اٹھا ’’ یہ زیادتی ہے ببر ‘‘
میں جواباً ہنس دیا ’’ اپنی اپنی قسمت ہے ‘‘
کچھ دیر گزری ہوگی کہ دروازہ پر دستک ہوئی ۔ٹیچر زرینہ بولی ’’ لگتا ہے امی آگئیں ‘‘ اس نے جلدی سے خود کو سمیٹا اور دروازہ کھولنے چلی گئی۔اگلے ہی لمحے ٹیچر زرینہ اوراسکی اماں کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں۔’’ارے امی آپ کو کیسے پتہ چلا کہ اس وقت میرا پیزہ کھانے کو بڑا دل چاہ رہا تھا ۔میں نے بابر سے کہا بھی کہ کاش امی کو کہہ دیتی لیکن آپ نے تو جیسے میرے دل کی بات سن لی ہو ‘‘
ٹیچر زرینہ پیزہ لئے میرے پاس آئیں اورمسکراتے ہوئے بولیں ’’ بابر یہ دیکھو۔پیزہ‘‘
میں بھی ہنس دیا تو بولیں ’’ دیکھ لو ہم نے تمہاری خاطر دل سے جو چیز مانگی وہ ہمیں مل گئی ‘‘
اس لمحے گنگو نے کہنی ماری ’’ اسے کہو ۔ٹیچر میرے لئے آپ جب بھی کوئی چیز دل سے مانگیں گی تو مانگ پوری ہوگی‘‘
میں نے گنگو کی کہی بات ٹیچر زرینہ سے کہہ دی۔وہ چہکی ’’ اچھا ۔پھر تو مزہ آجائے گا‘‘
ٹیچر زرینہ نے پیزہ کاٹ کر پلیٹ میں رکھا،اسکی اماں بھی اس دوران ہمارے پاس آگئیں اور ہم نے مل کر پیزہ کھایا ۔ اماں بولیں ’’ شکر ہے میرے اللہ آج میری بیٹی بہت خوش ہے۔بابر تو روز پڑھنے آجایا کر ۔تیری پڑھائی ہوتی رہے گی اور میری بیٹی کی اداسی ختم ہوجائے گی۔جب سے اسکی بڑی بہن کی شادی ہوئی ہے ،یہ اکیلی رہ گئی ہے۔سکول سے آنے کے بعد خاموش رہا کرتی ہے۔کوئی بات نہیں کرتی ۔‘‘
میں نے چونک کر ٹیچر زرینہ کی جانب دیکھا تو اس کے چہرے پر اعتماد کی چھایا پڑی تھی۔اس نے دھیرے سے سر کو ہلایا ۔گویا مجھے اب اذن تھا کہ میں روزانہ ارمانوں کی کوکھ میں بیٹھ کر شیطان شیطان کھیل سکتا تھا ۔(جاری ہے )
جناتی، جنات کے رازداں اور دوست کے قلم سے۔..قسط نمبر31 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں