سوال کیا ’’اور یہ جو خود بیٹھی ہیں ان کی مجبوری کیا ہے ؟ ‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں بظاہر کوئی مجبوری نہیں یہ جا بھی سکتی ہیں لیکن ان سے احساس زیادہ جاتا رہا ہے ، ان کی عادئیں پختہ ہو کر ان کی فطرت بن چکی ہیں پس منظر میں ایک تو پیٹ کا مسئلہ ہے دوسرے ان کی عادتیں اتنی خراب ہو چکی ہیں کہ اس ماحول سے نکلتے ہوئے گھبراتی ہیں ، جب وہ اس ٹھکانہ پر آبیٹھی ہیں تو اُن کے لئے کوئی دوسرا ٹھکانہ باقی نہیں رہتا۔‘‘
’’کیا انہیں ماں باپ کا خیال آتا ہے؟‘‘
وہ چُپ ہوگئی لیکن زمرد نے چائے کی پیالیاں پیش کرتے ہوئے کہا ’’ آپ کا سوال احمقانہ ہے ! عورت کا دل بڑا ہی نرم و نازک ہے ہر بیٹی ماں کے گود کو ضرور یاد کرتی ہے ‘‘، خورشید کا چہرہ اشکبار ہوگی اُس نے پلو سے آنسو پونچتے ہوئے کہا۔
اس سوال کا تعلق دماغ سے نہیں دل سے ہے۔
’’آپ کسی کے عقد میں کیوں نہیں چلی جاتیں؟‘‘
’’عقد تو روز ہوتا ہے لیکن ہر عقد کے ساتھ ہی طلاق بھی ہوجاتی ہے۔‘‘
’’معاف کیجئے مردوں میں شادی کی خواہش بستر تک ہی رہتی ہے جب خون کی حرارت ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو پھر شادی کا خیال بھی اُڑجاتا ہے۔ ‘‘
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر 13پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ کیا آپ کو لائسنس لینا پڑتا ہے ؟‘‘
’’جی نہیں تھانے میں رپٹ لکھوادی جاتی ہے۔‘‘
’’کوئی ٹیکس وغیرہ ؟ ‘‘
’’پیشہ کا ٹیکس تو کوئی نہیں ویسے کئی ٹیکس ہیں ۔‘‘
’’مثلاً‘‘
’’یہ مثلاً نہ پوچھئے۔ اس مثلاً میں بڑے خطرے ہیں ؟ مثلاً مرد کی بیگار اُس کی محنت ہے ، اور عورت کی بیگار اُس کی عصمت ۔!کیا یہ صحیح ہے کہ کارپوریشن کے ڈاکٹر پر مہینے معائنہ کرتے ہیں ۔ ‘‘
’’ جی ہاں ہر مہینہ تو نہیں ، لیکن سوماہی ششماہی چلے آتے ہیں۔‘‘
’’ مشہور ہے کہ مہلک مردانہ امراض ان گھروں ہی سے تقسیم ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہوسکتا ہے بعض عورتیں مریضہ ہوں ،لیکن جو کچھ مرد دے جاتے ہیں وہی لے جاتی ہیں ، اس قسم کے مرض عورت کا مرد سے صحیح انتقام ہیں۔‘‘
’’تمہاری آمدنی کیا ہے ؟‘‘
’’ یہ ایک کاروباری راز ہے!‘‘
’’ان عورتوں کی آمدنی کیا ہوگی ۔‘‘
’’ہر عورت کی آمدنی مختلف ہے بعض دن میں سو بھی کما لیتی ہیں۔ بعض پچاس بعض چالیس بعض پندرہ اور بعض چوبیس گھنٹے میں دو چار سے آگے نہیں بڑھتیں کئی معمریں کئی کئی روز کچھ نہیں کماتیں آجکل ویسے ہی مندا ہے ۔‘‘
’’ اور یہ جو ٹھیکیداروں کے قبضہ میں ہوتی ہیں اُنہیں کیا ملتا ہے ؟‘‘
ؔ ’’روٹی کپڑا ،‘‘
’’اس کے علاوہ ؟‘‘
’’اس کے علاوہ وصول دھپا ، گالی گلوچ ، باور کیجئے ان میں سے اکثر نے یہ پاس کی شاہی مسجد کو مینار تک نہیں دیکھے ہیں؟ شہر کا تو ذکر ہی کیا ہے۔‘‘
’’تو گویا یہ عورتیں نہیں ہیں۔‘‘
’’جی ہاں کھلونے ہیں دلچسپ کھلونے ، جن سے کائنات کی ہر شے کھیلتی ہے۔‘‘
’’کیا سال کی تین سو پینسٹھ دنوں میں آپ کوئی چھٹی بھی مناتی ہیں؟‘‘
’’عاشورہ کی دس دن ‘‘
’’ اور عید ، شبرات ۔‘‘
’’ یہ تو ہماری کمائی کے دن ہوتے ہیں ۔‘‘
ؔ ’’رمضان المبارک میں؟‘‘
’’ہمارا کاروبار رات کو شروع ہوتا ہے اور روزہ کا تعلق دن سے ہے۔‘‘
’’آپ کا عاشورہ سے کیا تعلق ہے؟‘‘
’’حسین علیہ الصلوۃ والسلام کی شہادت کے دن ہیں اور ہم مذہباً ان دنوں کا احترام کرتی ہیں۔‘‘
’’کیا تمہیں مذہب سے دلچسپی ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں ! ہم بھی بفضلہ تعالیٰ مسلمان ہیں یہ ٹھیک ہے کہ ہم گنہگار ہیں لیکن خدا کی رحمت کے دروازے تو ہم پر بند نہیں سب بہنیں پیر فقیر مناتی ہیں نذر نیاز دیتی ہیں مزاروں پر چڑھاوے چڑھائی ہیں ، خانقا ہوں کے سلام کو جاتی ہیں ، عاشورہ کے دنوں میں ماتم کرتی ہیں تعزیہ نکالتی ہیں علم اُٹھاتی ہیں۔‘‘
میں نے جائزہ لیا تو اُس کا مکان ڈربہ نہیں تھا دو کمرے تھے۔ پہلا کمرہ ’’انتظار ‘‘ تھا جہاں وہ کرسی پر بیٹھی گاہکوں کا راہ تکتی ہیں دوسرا کمرہ خلوت خانہ تھا جہاں ایک چوبی پلنگ پڑا تھا، اس پر ایک تو شک تھی اور تو شک پر سفید چادر ، پلنگ کے چوکھٹوں میں دوننگی تصویریں جڑی ہوئی تھیں ، اُوپر دیوار پر اخباروں کے تصویری تراشے لئی سے چسپاں تھے ۔ثریا ، کامنی ، نرگس ، نمی، صبیحہ اور نور جہاں کے فوٹو فریم کئے ہوئے تھے ، ایک کونے میں جستی حمام پڑا تھا ، اس کے پہلے میں مٹی کا گھڑا اور مٹی کا لوٹا رکھا تھا غالباً شہتیروں کی بدنمائی کو چھپانے کے لئے اخباروں کے پُرزے چھت میں چپکا دیئے گئے تھے۔ معنی خیر سرخیاں ، دلچسپ عبارتیں:
حکومت پاکستان چکلے اُٹھا دینے کے مسئلہ پر غور کر رہی ہے، زمیندار
’’چٹان ‘‘ کو فحاشی کے الزام میں بند کر کے حکومت نے مستحسن قدم اٹھایا ہے۔ آفاق
پاکستان کا دستور شرعی بنیادوں پر بنایا جارہا ہے۔ سید سلیمان
ندوی کی توصیحات۔ احسان
بیڈن روڈ پر ایک نوجوان عطاء الرحمن نے خود کشی کر لی ، وہ کئی روز سے بھوکا تھا۔ امروز
مجھے عصمت فروشنی کے لیے مجبور کیا جاتا رہا ہے ، عدالت میں حُسن بانو کا بیان۔ نوائے وقت
یہ حکومت غیر اسلامی بنیادوں پر قائم ہے۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودوی کی تصریحات۔ تسنیم
****
نیلم کی کہانی
غور سے دیکھا تو نیلم کے چہرے پر ابھی تک عورت کا رُوپ تھا ۔پہلے اُس کا مکان چیت رام روڈ پر تھا اب بازار شیخو پوریاں میں ہے ان پانچ سالوں میں اُس پر مصیبت کی ایک پوری کہانی بیت چکی ہے اب وہ ایک خرانٹ عورت ہے اس کا مکان بہت سی نوواردوں کا اڈا ہے وہ اُن کی مالکن ہے وہ اُن کی معلمہ ہے وہ اُن کا آپا ہے وہ ایک داستان گوہے لیکن خود بھی ایک سرگزشت ہے اب اُس کا گورا رنگ مدہم ہوچکا ہے اُسکی چپٹی ناک اور بھی بیٹھ گئی ہے ۔وہ میانہ قامت ، لیکن بالا بلندوں سے شانے ملاتی ہے اُس کی آنکھوں میں مضمحل سارس ہے لیکن ڈورے سر مئی ہیں اُس کے یاقوتی ہونٹوں پر بہت سی کانٹیں ہیں جن سے ان گنت تماشائیوں کی شب بسری کا سراغ ملتا ہے اس کا لہجہ بے وقار ہونے کے باوجود خنک ہے اس کی زندگی کئی مخاصمتوں اور مفاہمتوں کا سنگم ہے وہ ان عورتوں کا صحیح نمونہ ہے جن میں اُفتادِ زمانہ ہے کئی عورتوں کی خصوصیتیں جمع ہوجاتی ہیں ۔حرافہ کا شہد پن ۔۔۔ رنڈی کا فحش ۔۔۔ نائکہ کا تجربہ اور مدخولہ کی سینہ زوری۔
’’آپ اس بازار میں کہانیاں جمع کر رہے ہیں ؟‘‘ اُس نے کہا ۔۔ ۔ ’’ مشغلہ تو اچھا ہے لیکن آپ اس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جتنی بھی عورتیں اس بازار میں ہیں سب ایک ہی ٹہنی کی پتیاں ہیں۔ سب کا دردیکساں ہے سب کی کہانی ایک سی ہے ، سب خوش ہیں سب ناخوش سب عورتیں ہیں اور کوئی بھی عورت نہیں۔ بھلا وہ عورت عورت رہ جاتی ہے جس کی آبرو کے دروازے پر ہر کوئی دستک دے سکتا ہو جس کی کوئی سی ذات بھی اپنی نہ ہو اور جس کا بستر کرایہ کی چیز ہو ۔۔۔ ہاں ! آپ میری کہانی پوچھنا چاہتے ہیں تو سنیئے ۔۔۔ یہ اس عورت کی کہانی ہے جو سب کچھ ہارچکی ہے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)