عمران علیمہ کو سیاسی جانشین مقرر کریں 

Jul 26, 2024

حامد ولید

 عمران خان کی سزا لمبی ہو نہ ہو، قید ضرور لمبی ہوتی جا رہی ہے، اب تو پی ٹی آئی والوں نے تاریخ دینا بھی بند کردیا ہے ورنہ گزشتہ برس تو ہر دوسرے روز ایک تاریخ دے دی جاتی تھی۔ خاص طور پر 8فروری کے انتخابات کے اردگرد تو تھوک کے حساب سے تاریخیں دی گئی تھیں جن کا مقصد عوام کو انتخابات سے قبل موبلائز کرنا تھا کہ اگر وہ بھرپور طریقے سے ووٹ ڈالیں گے تو عمران خان کو رہائی مل سکے گی، چنانچہ خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کے عوام نے ہاتھ پیروں کے انگوٹھے لگا کر پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں پر ٹھپے لگائے مگر اس ساری ایکسرسائز سے اب تک وہ کچھ برآمد نہیں ہوسکا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

سچ پوچھئے تو اب تو عمران خان کی رہائی کی امید بھی ختم ہو چکی تھی مگر پھر اچانک سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ دے دیا جس کے خلاف اب وہ ریویو کی درخواست سننے کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار نہیں کر پارہی، دوسری جانب حکومت اور اس کے حلیفوں نے بھی ٹھان لی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اگر سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی گئی ہے تو عاشق کے اس جنازے کو ذرا دھوم سے نکلنا چاہئے اور پی ٹی آئی پر پابندی کے علاوہ عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ 

سیاسی محاذ پریہ افراتفری اب معاشی مسائل میں گھرے عوام کے احتجاجوں کی شکل اختیار کر رہی ہے اور آج یعنی جمعے کے روز پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اور ناجانے کون کون مہنگائی، بے روزگاری، بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہے۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ اب کی بار وہ ضرور کامیاب ہو جائے گی کیونکہ ایک طرف تو عمران خان کو رہانہیں کیا گیا، دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہورہا تو تیسری طرف عوام بڑھتی مہنگائی اور ناقابل برداشت بجلی کے بلوں سے بلبلائے ہوئے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے یہ ایک آئیڈیل صورت حال ہوتی ہے کہ اسے خودبخود عوامی پذیرائی مل جاتی ہے۔ 

تاہم سوال یہ ہے کہ اگر اس بار بھی عوام نے پی ٹی آئی کو ہری جھنڈی دکھادی اور سڑکوں پر آنے سے انکار کردیا تو کیا بنے گا؟دیکھا جائے تو یہ صورت حال پی ٹی آئی کے لئے سوہان روح ہو گی کہ اس کے باوجود کہ اس نے انتخابات میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کی ہیں مگر عوام اس کے کہنے پر سڑکیں گرم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، اس سے بڑی بدقسمتی اور بد بختی کیا ہو سکتی ہے کہ عوام آپ کو ووٹ تو دیں لیکن آپ کے لئے سڑکوں پر آکر پولیس کے ڈنڈے کھانے کے لئے تیار نہ ہوں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ پی ٹی آئی میں سب سے مقبول شخصیت اس وقت جیل میں ہے اور کوئی مائی کا لال ان کے فین کلب کو متحرک نہیں کر سکتا  لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی رکھنے والے عوام اسی وقت سڑکوں پر آتے ہیں جب ان کا محبوب لیڈر جیل میں ہوتا ہے جبکہ پی ٹی آئی پہلی جماعت ہے جو ایسی عوامی پذیرائی سے محروم ہے۔

چنانچہ پی ٹی آئی کا امتحان شروع ہو چکا ہے کہ آیا وہ عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں کیونکہ سیاست میں تب تک کچھ تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ عوام کی کثیر تعداد آپ کے موقف پر سڑکیں ناپنے نہیں نکل کھڑی ہوتی۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایسی پارٹی اور اس کی قیادت کی مقبولیت کاغذی پھول کی طرح ہے جو خوشنما تو ہو مگر اس میں خوشبو نام کو نہ ہو۔ 

اگر اس مرتبہ بھی پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی تو پھر عمران خان کے پاس ماسوائے قیادت کی تبدیلی کے اور کوئی راستہ نہیں بچے گا۔ اس اعتبار سے اسد قیصر، گوہر خان اور عمر ایوب کا بہت کچھ سٹیک پر لگا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک ہاری ہوئی جنگ کی آخری بازی کھیل رہے ہیں اور شکست ان کا مقدر ہے کیونکہ ان میں سے کوئی بھی ایسا سیاسی اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ لوگ ان کی ایک آواز پر کھڑکیوں روشندانوں سے ابلتے ہوئے باہر نکل آئیں، اس کے برعکس نو ن لیگ میں مریم نواز اور پیپلز پارٹی میں بلاول بھٹو وہ کرشماتی اہلیت رکھتے ہیں کہ اگر ان کی ٹاپ لیڈر شپ جیل چلی جائے یا جلاوطن ہو جائے تو وہ سڑکوں کو گرما سکتے ہیں۔ افسوس کہ عمران خان نے اپنی پارٹی میں اپنے سوا کسی اور کو لیڈر بننے ہی نہیں دیا۔ شائد اس کی وجہ ہے کہ عمران خان کے خاندان میں سے کوئی اس طرح متحرک نہیں ہے جس طرح باقیوں کا معاملہ ہے لیکن یہ بات بھی غلط ہوجاتی ہے جب علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کی چپقلش کی خبروں پر نگاہ جاتی ہے جس کے بعد عمران خان نے دونوں کو پارٹی قیادت سے محروم رکھنے کا ارادہ کرلیا تھا۔

اگر اس مرتبہ بھی لوگ عمران خان کے لئے سڑکوں پر نہ آئے تو پھر ٹرمپ کیا ان کے بڑے بھی امریکہ میں برسراقتدار آجائیں، عمران خان کو کوئی رہا نہیں کرواسکے گا۔ ضروری ہے کہ عمران خان جمعے کا دن گزر جائے توپارٹی قیادت تبدیل کرکے علیمہ خان کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کریں تاکہ پارٹی کے نیم مردہ جسم میں کوئی جان پڑ سکے اور لوگ ان کے ساتھ کنکٹ ہونے کو اعزاز جانیں!

مزیدخبریں