میں گڈی دے کاغذ ورگا
توں کِن مِن میں مر جانا ای
پنجاب میں بیوروکریسی کی کارکردگی، نظم و نسق اور پالیسیوں کے نفاذ میں واضح تبدیلیاں سامنے آئی ہیں، خوش آئند امر یہ کہ موجودہ چیف سیکرٹری زاہد زمان نگران دور سے اس عہدے پر فائزہیں جو پنجاب کی بیوروکریسی میں استحکام اور تسلسل کا مظہر ہے،چیف سیکرٹری نے نہ صرف صوبائی،ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ کی نگرانی موثر انداز میں کی بلکہ پرفارمنس بیسڈ گورننس کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، ان کی قیادت میں تمام سیکرٹریز کو واضح اہداف دئیے گئے اور ہر ماہ کارکردگی رپورٹ مرتب کر کے وزیراعلیٰ کو پیش کی جاتی ہے، اسی طرح ضلعی سطح پر بھی مقابلے کی فضاء بنی اور پسماندہ اضلاع نے بھی نمایاں کارکردگی دکھائی، صوبائی سیکرٹریوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو اکثر محکموں میں قابل ِ ذکر بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ان دنوں پنجاب کی گلیوں، سوشل میڈیا پوسٹوں، سرکاری نوٹیفیکیشنز اور بیورو کریسی کی پریس کانفرنسوں میں وزیراعلیٰ صاحبہ کی تصاویر کے ساتھ ساتھ ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے، ”پنجاب سب توں اگے وے“ بیورو کریسی کی درجہ بندی ہو رہی ہے، فائلیں برق رفتاری سے دوڑ رہی ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنی پیش رفت کے باوجود شاعری، ادب، اور اہل ِ فن کو دفنانے کا عمل بھی پہلے سے بھی زیادہ منظم اور مربوط سے مربوط انجام پا رہا ہے۔
ضلع قصور کے ایک پسماندہ علاقے چونیاں سے تعلق رکھنے والے شاعرتجمل کلیم، پنجابی ادب کا ایسا روشن چراغ تھے، جس کی روشنی میں کئی نوجوان لکھنے والے اپنی راہیں تلاش کرتے تھے، خاموشی سے بجھ گیا، زندگی میں کبھی کسی سرکاری میٹنگ، ثقافتی کانفرنس یا کسی لائبریری کے افتتاح میں اْن کی موجودگی ریکارڈ پر نہیں آئی اور اب، مرنے کے بعد، یوں تعزیتی بیانات جاری ہو رہے ہیں جیسے وہ سرکاری شاعرِ اعظم رہے ہوں۔وزیراعلیٰ مریم نواز سے لے کر محکمہ اطلاعات و ثقافت کے تمام کرتا دھرتا تجمل کلیم کی وفات کو پنجابی ادب کا ناقابل ِ تلافی نقصان قرار دے رہے ہیں اور حکومت پنجاب اْن کی ادبی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے،او بھائی خراجِ عقیدت ہی پیش کرنا تھا تو زندگی میں کر لیتے، شاید بندہ تھوڑا اور جی لیتا، کہتے ہیں،ہم پنجابی زبان کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں اور تجمل کلیم جیسے ادیبوں کی حوصلہ افزائی حکومت کی اولین ترجیح ہے ”واقعی؟ اگر حوصلہ افزائی یہی ہے تو دشمنی کیسی ہو گی؟
یہ سب کچھ سن کر خیال آتا ہے اور میں وزیراعلیٰ صاحبہ اور چیف سیکرٹری صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا واقعی گڈ گورننس صرف فائلوں، ایپلی کیشنز، اور رنگین پریذنٹیشنز کا نام ہے؟ کیا افسرانِ بالا نے کبھی ان ادبی روحوں کی چیخیں سننے کی کوشش کی ہے جو ہر سال گمنامی کی قبر میں دفن ہو جاتی ہیں؟ کیا تجمل کلیم کا گناہ یہ تھا کہ وہ کسی”کلچر کے مدارالمہام“ کے جاننے والے نہیں تھے؟ ہاں،پنجاب سب توں اگے اس لیے بھی ہے کہ یہاں کلچر ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ کا بیشتر حصہ فنکاروں یا ادیبوں پر نہیں، بلکہ بینرز، میڈیا، سوشل میڈیا کمپینز اور ”کلچرل سیمینارز“ کی تصویری رپورٹوں پر خرچ ہوتا ہے،جن میں کچھ مسکراتے افسر، چاپلوس لکھنے والے، دو چار کرسیاں، کافی، چائے کے کپ اور اگلے سال کے بجٹ کی فائلیں ہوتی ہیں، شاعر؟ تو وہ ان دفاتر کے باہر کھڑا سوچ رہا ہوتا ہے ”کاش میں بھی کسی کا بھانجا، بھتیجا ہوتا“۔درجہ بندی کا شور بھی بڑا دلچسپ ہے، بیورو کریسی کو ”پرفارمنس“ کی بنیاد پر A، B، C، اور D گریڈ دیئے جا رہے ہیں، کسی نے پوچھا،“یہ پرفارمنس ناپی کیسے جا رہی ہے؟”جواب آیا“ KPIs کے ذریعے”، پوچھا: ”KPIs کیا ہوتے ہیں؟“ فرمایا، ”جتنا فائل جلدی آگے بھیجیں، اتنا ہی اچھا گریڈ“ اگر واقعی درجہ بندی کا معیار صرف فائلوں کا سفر ہے تو پھر تجمل کلیم جیسے شاعر، جو پوری زندگی کاغذ پر لفظوں کی روشنی بکھیرتے رہے، اْن کا بھی گریڈ بنتا تھا، شاید۔
یہاں، ایک طرف وزیراعلیٰ صاحبہ ٹوئٹ فرما رہی ہیں کہ ”ہم نے فنونِ لطیفہ کے فروغ کے لئے فلاں فلاں ادارے اور ٹاسک فورسز بنا دی ہیں“ اور دوسری طرف پنجابی کے بڑے لکھاری قبر میں اترتے وقت بھی بے نشان ہوتے ہیں، لطافت تو خیر رہنے ہی دیں۔پنجاب سب توں اگے اس لیے بھی ہے کہ یہاں آرٹس کونسلز کی کانفرنسوں میں اردو اور انگریزی بولنے والے ”تھنک ٹینک“ تو سٹیج پر جگہ پاتے ہیں، لیکن وہ پنجابی شاعر جو گاؤں کی چوپال سے لے کر شہر کی یونیورسٹی تک ادب بانٹتا ہے، اُسے داخلے کا پاس بھی نہیں دیا جاتا، تجمل کلیم شاید اس لئے غیر اہم رہے کہ اُن کی شاعری میں کوئی وزیر یا افسر خود کو نہ پا سکا،یہاں ادب کے نام پر ایسی ایسی تقریبات ہوتی ہیں جہاں مائیک پر آنے والے حضرات شاعر اور ادیب کی وفات پر افسوس کم، اپنا اور حکومت کا ذکر زیادہ کرتے ہیں۔ان حالات میں پنجابی زبان اور ادب کا مستقبل کیا ہے؟جواب سادہ ہے،اگر گڈ گورننس کی یہی شکل برقرار رہی، تو پنجابی ادب کا سب سے مضبوط ادارہ قبرستان ہو گا،وہاں وہ سب لکھاری اکٹھے ہوں گے، جنہیں زندگی میں حکومتی ”ریویو“ میں شامل ہونے کا اعزاز نہ ملا۔پنجاب حکومت اگر تجمل کلیم کو واقعی خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہتی ہے، تو اُن کی شاعری کو نصاب کا حصہ بنائیں، اْن کے نام پر لائبریری یا ادبی میلہ سجائیں،اُن کے فن پر تحقیقی مقالے لکھوائیں، ورنہ تھوڑے دِنوں بعد کسی اور شاعر اور ادیب کی قبر کے سامنے یہی تعزیتی بیانات دہرائے جائیں گے،90ء کی دہائی کے اوائل میں جب میں ایک نئے اخبار میں کام کر رہا تھا تو ہمارے سینئر سرفراز سید صاحب نے اخبار کے مالک سے کہا،ہمارے اخبار میں علم و ادب کا صفحہ بھی ہونا چاہیے تو انہوں نے ایک موٹی سی گالی دے کر کہا ”علم وادب دی۔۔۔ایسے صفہات تجویز کریں جن سے پیسہ آئے“ خواجہ غلام فرید نے کیا خوب کہا تھا،
تو ں کی جانے یار فریدا،
روٹی بندہ کھا جاندی اے،
آخر میں تجمل کلیم کے کلام سے کچھ آپ کے لئے،
دن تے گن میں مر جانا ای
تیرے بن میں مر جانا ای
میں گْڈی دے کاغذ ورگا
توں کِن مِن میں مر جانا ای
جیہڑے دن توں کنڈ کرنی اے
اوسے دن میں مر جانا ای
جان دی بولی لا دتی اْو
اک دو تن، میں مر جانا ای
سورج ٹْردا نال برابر
دن کیوں لگن سال برابر
وِتھ تے سجنا وِتھ ہوندی اے
بھاونویں ہووے وال برابر
اکھ دا چانن مر جاوے تے
نیلا، پیلا، لال برابر
جْلی منجی بھین نوں دے کے
ونڈ لئے ویراں مال برابر
مرشد جے نہ راضی ہووے
مجرا، ناچ، دھمال برابر
اْتوں اْتوں پردے پاون
وچوں سب دا حال برابر
وعدے پْورے کر نئیں جاندا
سوچ رہیاں کیوں مر نئیں جاندا
جس دن نہ مزدوری لبھے
بْوہے ولوں گھر نئیں جاندا
کانواں تک نوں ذات پیاری
بندہ سْن کے مر نئیں جاندا
بدلاں وانگ نیں گجدے بندے
وسن کسراں اج دے بندے
توں جے پلو کیتا ہندا
کندھاں وچ نہ وجدے بندے
ربا تینوں تھوڑ اے کیہڑی
تیتھوں وی نہیں رجدے بندے
قسمے منزل مل جانی سی
اک پاسے جے بھجدے بندے
دوہاں صدیاں تیکر جینا
چج دے شعر تے چج دے بندے