جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت انڈین سول سروس کے صرف 95 مسلمان افسروں نے پاکستان کی خدمت کی حامی بھری۔دیگر محکموں کے 205 کلاس ون افسر پاکستان کے حصے میں آئے۔ اس طرح کل 300 افسروں کے کاندھوں پر ایک نوزائیدہ مملکت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی بھاری ذمہ داری عائد تھی۔گنتی کے ان افسروں نے اپنی پیشہ وارانہ مہارت،خودادری، جانفشانی، ایمانداری، نیک نیتی اور جذبہ حب الوطنی سے سرشاری کی بنیادپرمحیر العقول کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے پاکستان کو نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ 1970 تک اسے دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت بنا دیااور اس کی سالانہ شرح نمو11.8 تک پہنچا دی۔ اسی لیے تو بانی پاکستان نے پشاور کے ایک جلسہ میں وزراء اور بیوروکریٹس سے مشترکہ خطاب کرتے ہوئے بیوروکریسی کو ”پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی“ قرار دیا تھا۔ لیکن بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس ریڑھ کی ہڈی پر اتنی کاری ضربیں لگائیں کہ اسے ا پنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ چھوڑا۔ ایک ملٹری ڈکٹیٹر ایوب خان کے ساتھ وزیر خارجہ کے عہدے کے مزے لوٹنے والے جمہوریت پسند عوامی لیڈر جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید اس ریڑھ کی ہڈی سے اتنے نالاں تھے کی انھوں نے ایک دفعہ فرمایا تھا:”ملک میں کسی بھی ادارے نے قومی زندگی کے معیار کو اتنا نہیں گرایاجتنا نوکر شاہی نے۔اس نے برہمنوں کی ایک ایسی کلاس پیدا کی ہے جن کی امارت پرستی اور بدتمیزی کو لگام نہیں دی جاسکتی“۔ اپنے اسی نظریہ کی بنیاد پر انھوں نے اقتدار میں آکر بیورو کریسی میں اصلاحات کے نام پر 1300 ناپسندیدہ افسروں کو بدعنوان کہہ کر نوکری سے نکال دیا۔سی ایس پی کلاس کو ختم کر کے آل پاکستان یونیفائیڈ گروپ بنا کر مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والوں کے لیے کامن ٹریننگ کا آغاز کر دیا۔یہاں تک کہ سیاسی بنیادوں پر بغیر کسی امتحان کے لیٹرل انٹری کے نام پر تقریبا 5500 افسربھرتی کر لئے۔
اس کے بعد کے تمام حکمرانوں نے بھی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کو کمزور کرنے کی کوشش جاری رکھی جس کے نتیجے میں بیورو کریسی میں بھی جاہ پرستوں، دولت کے پجاریوں، موقع پرستوں اور خوشامدیوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا۔پھر میرٹ کی بجائے سیاستدانوں کی ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر عہدوں کی بندر بانٹ کا آغاز ہوا۔بیوروکریٹس کے اس گروہ نے سیاستدانوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا اور اپنی ناجائز کمائی میں سے ایک حصہ ان تک بھی پہنچانا شروع کردیا۔سیاستدانوں کے ڈیروں کے خرچے پٹواریوں، سیکرٹری یونین کونسلز اور رجسٹری محرروں نے چلانے شروع کر دیے۔ پھر سیاستدان میرا پٹواری، میرا سیکریٹری یونین کونسل اور میرا رجسٹری محرر کہہ کر انھیں پرکشش عہدوں پر تعینات کروانے میں جت گئے۔یہ کام 1972 سے شروع ہوا اور آج تک جاری و ساری ہے۔ ایک فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کا دور آیا۔اس نے تو اس ریڑھ کی ہڈی کو بالکل ہی مفلوج کر کے رکھ دیا اور پنجاب لوکل گورنمنٹ سسٹم کے نام پر ملکی اداروں میں ایسی توڑ پھوڑ کی جس سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ برباد ہو گیا۔ڈویژنز ختم کر کے کمشنر کا عہدہ ہی ختم کر دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر کو ڈی سی او(ڈی سی۔۔زیرو) بنا کر میٹرک پاس ناظمین کے ماتحت کر دیا گیا۔ سارا دن پولیس تھانوں سے ملزمان کو چھڑوانے والے ایک سیاسی شخص (ضلع ناظم) کوامن و امان کا ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا۔عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرنے کا نام پرڈپٹی کمشنر کے اختیارات پولیس اور عدلیہ میں تقسیم کر دیے گئے۔جبکہ یہ کام 1996ء میں ہی مکمل ہو چکاتھا۔ اس وقت ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر مجموعہ ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان کے ابواب نمبر: 8,10,13 & 14 کے تحت آنے والے اور تمام لوکل اینڈ اسپیشل لاز کے تحت آنے والے جرائم کی سماعت کے اختیارات انتظامیہ کے پاس رہنے دیے گئے تھے۔ ان اختیارات کی بدولت ہی ضلعی انتظامیہ حکومتی رٹ کو برقرار رکھنے کے قابل تھی۔
جنرل پرویز مشرف کے دیے گئے نظام میں انھیں خود بھی اس میں بے شمار ترامیم کرنا پڑیں۔ اس کے بعد میں آنے والی حکومتوں نے بھی ہر ممکن کوشش کی جنرل مشرف کے بگاڑے گئے نظام میں اصلاحات لا کر حکومتی رٹ کو سنبھالا دے سکیں۔ لیکن بے سود۔ موجودہ مرکزی حکومت کو شاید اب یقین ہو چلا ہے کہ جب تک بے بس ضلعی انتظامیہ کو اختیارات نہیں دیے جاتے ان کی ناکامی نوشتہ دیوار رہے گی۔ اس لیے مرکزی حکومت کے کیبنٹ ڈویژن نے مورخہ 19۔اگست 2025 کو ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے وفاقی وزیر قانون کی سربراہی میں سینئر سیاستدانوں، قانون دانوں اور بیوروکریٹس پر مشتمل ایک18 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔اس کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ موجودہ قوانین کا ملاحظہ کرے اور ضلعی انتظامیہ کو موثر بنانے کے لیے متعلقہ قوانین میں ترامیم کر نے کے لیے ایک ماہ کے اندر اندر اپنی سفارشات پیش کرے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس میں صوبائی سروس کے دو سینئر ترین افسران، جناب نسیم صادق،جو میرے اسسٹنٹ کمشنر رہ چکے ہیں اور جناب پسند خان بلیدی، جو میرے بیچ میٹ ہیں، کو بھی شامل کیا گیا ہے۔صوبائی سول سروس کے افسران کا عملی تجربہ وفاقی سول سروس کے افسران سے کہیں زیادہ ہوتا ہے اس لیے اس کمیٹی میں صوبائی افسران کو شامل کرنا خوش آئند ہے او ر یقینا فائدہ مند بھی ہو گا۔
اندریں حالات ہم بھی اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں مذکورہ کمیٹی کے سامنے چند سفارشات رکھتے ہیں۔وہ یہ کہ:ایگزیکٹو مجسٹریسی کو بحال کرنے کے لیے مجموعہ ضابطہ فوجداری، تعزیرات پاکستان کے ابواب نمبران:8,10,13 & 14 اور تمام لوکل اینڈ اسپیشل لازکے تحت تمام جرائم کی سماعت کا اختیار ایگزیکٹو مجسٹریٹس کو دیا جائے۔ ان تمام قوانین میں پارلیمنٹ سے ترامیم کروا لی جائیں۔ ڈپٹی کمشنر کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بنا دیا جائے اور اسے امن عامہ کو برقرار رکھنے کا اختیار دیا جائے۔ہر تحصیل میں ایک ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنرکا عہدہ متعارف کروایا جائے۔ جونیئر افسران کم از کم تین سال تک اس عہدہ پر کام کریں پھر انہیں اسسٹنٹ کمشنر کا عہدہ دیا جائے۔اضلاع میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (فنانس اینڈ پلاننگ) کا عہدہ ختم کر کے اسے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(مجسٹریسی) کا نام دیا جائے اور فنانس اینڈ پلاننگ کا سار اکام ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(جنرل) کے سپرد کر دیا جائے۔ تمام انتظامی افسروں کو پولیس وائرلیس کنٹرول نیٹ ورک سے منسلک کر دیا جائے۔ پولیس کی مختلف برانچوں کو تھانہ کے ایس ایچ او کے ماتحت کر دیا جائے۔ تھانوں کی تعداد اور پولیس کی نفری بڑھا دی جائے اورہر تھانے کا دائرہ اختیار کا علاقہ کم کر دیا جائے۔ پنجاب انفورسمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی(پیرا) کا پورا سٹاف،گاڑیاں اور دوسرا سازوسامان تھانوں کے حوالے کر دیا جائے۔پولیس چونکہ ایک فورس ہے۔فورس کا جسمانی طور پر فٹ ہونا ازحد ضروری ہے۔ اس لیے تمام پولیس ملازمین کو پچاس سال کی عمر تک پہنچنے پر نوکری سے ریٹائر کر دیا جائے۔ انھیں پاک فوج کی طرز پر فری میسنگ مہیا کی جائے۔اور ان کی ڈیوٹی کی جگہ پر ناشتہ اور کھانا پہنچانے کا بھی بندوبست کیا جائے۔