رادھاکی غیر موجودگی نے اسے کالی داس اور بسنتی کے لئے آسان بنا دیا۔ کالی داس تو شاید کسی طور پر رادھا کا مقابلہ کر لیتا یا چھپ کر اسکے قہر سے بچ جاتا لیکن بسنتی۔۔۔؟ اگر کالی داس اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہتا تو بسنتی کی خیر نہ تھی۔ رادھا اسے کسی طور پر معاف نہ کرتی۔
’’اگر میں سفارش کروں تب بھی وہ معاف نہ کرے گی؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا جس کا جواب مجھے فوراً ہی مل گیا ۔
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر70 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’نہیں قطعی نہیں‘‘ میرے بارے میں رادھا حد سے زیادہ حساس تھی۔ وہ کسی طور گوارانہ کر سکتی تھی کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی آئے۔ صائمہ اس کی مجبوری تھی میں نے واضح میں کہہ دیا تھا اگر صائمہ کو کچھ ہوا تومیں خود کشی کرلوں گا اسی لیے وہ صائمہ کے معاملے میں مجبور تھی۔ لیکن بسنتی کو وہ کبھی نہ چھوڑتی۔ خود میرے ضمیر کی خلش مجھے کبھی کبھی اس بات پر بے چین کر دیتی کہ میری وجہ سے بے گناہ لوگوں کو سزا ملی۔
’’کس وچارمیں گم ہو مہاراج!‘‘ سوچوں کے بھنورمیں پھنس کر میں بسنتی کی موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا جومیری گود میں سر رکھے اداس لیٹی تھی۔
’’بسنتی! کالی داس اور تم نے جس طرح میری مدد کی ہے میں یہ احسان ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔ لیکن اس بات کا مجھے بہت دکھ ہے کہ میری وجہ سے بے گناہ لوگ پھنس گئے۔ میرا مطلب ، عمرحیات ، ساجد اور جمال قریشی سے ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اس سمے ان کادھیان تمرے من میں کیسے آگیا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اکثر یہ خیال میرے دل میں آجاتا ہے۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یدی تم ان کے کرموں کی کتھا(کارناموں کی کہانی) سن لو تو پھر کبھی ایسی بات نہ کہو‘‘ وہ منہ بناکر بولی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔
’’وہ تینوں منش راون سے بھی برے ہیں۔ نہ جانے کتنی ہی ناریوں سنگ بلات کار کیا ہے ان لوگوں نے۔ اس پاپی عمر حیات کی بیٹھک میں ہر رات یہ تینوں اکٹھے ہو کر مدھ پیتے اور مجبور ناریوں کی عجت سنگ کھلواڑ کرتے۔‘‘ بسنتی کی بات سن کر میں شششدر رہ گیا۔
’’اور وہ پاپی ساجد۔۔۔اس نے تو ایک ہتھیا بھی کر رکھی ہے۔ ایک کنیا اس کے پاس آئی جس کا باپو (قیدی) تھا۔ یہ نردئی اس کی سہائتا کرنے کے بہانے اسے عمر حیات کے پاس لے آیا۔ جب وہ آگئی تو ان دونوں نے اس کا بلات کار کیا اور اس کی ہتھیا کردی۔ انہیں اس بات کی چنتا تھی یہ کسی سے کہہ نہ دے‘‘بسنتی نے اپنی بات جاری رکھی میرے ضمیرپر سے بوجھ ہٹ گیا تھا۔
’’اگر یہ بات ہے تو پھر تو ان کے ساتھ ٹھیک ہوا‘‘ اطمینان بھری سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔
’’پریم ! تم پاپ اورپن کے چکر کو چھوڑو کیول اس بات پر دھیان دو کہ رادھا کے آنے پر تم کالی داس سنگ کیا وچن پورا کرو گے‘‘ وہ دوبارہ اصل موضوع پر آگئی۔
’’کیا رادھا کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم کیا کرتے رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ترنت اس نے جواب دیا۔
’’یہی چنتا تو مجھے بیاکل کر رہی ہے جیسے ہی وہ منڈل سے باہر آئے گی۔ سب سے پہلے تمرے کارن بیاکل ہوگی۔ جب اسے میرے بارے جانکاری ہوگئی وہ ترنت اس کا پربند کر لے گی کہ کالی داس سپھل نہ ہو پائے۔‘‘
اس کی پریشانی بجا تھی رادھا کی قوتوں کا مجھے اندازہ تھا۔ کہیں رادھا مجھ سے بھی ناراض نہ ہو جائے؟ میرے ذہن میں خیال آیا اگر ایسا ہوا تو میرے لئے مشکلات بڑھ سکتی تھیں۔ پریشانی نے مجھے بھی آگھیرا تھا۔
’’پریم! اس بات کا اوش دھیان رکھنا کہ کالی داس کے سپھل ہونے میں ہم سب کا بھلا ہے‘‘ بسنتی میرے دل کی بات جان گئی تھی۔
’’اچھا پریتم! چلتی ہوں کل رادھا آجائے تو اس کے آنے سے پہلے کالی داس تمہیں بتائے گا کیا کرنا ہے؟‘‘ اس نے کہا اور حسرت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے غائب ہوگئی۔ میں اندر آگیا۔ صائمہ محو خواب تھی۔ بسنتی کی باتوں سے میں بھی پریشان ہوگیا تھا۔ دوسری صبح جب میں جاگا تو صائمہ ناشتہ تیار کر چکی تھی۔ اس کے چہرے سے خفگی ظاہر ہو رہی تھی۔ میں نے حیرت سے دیکھا رات کو تو اسکا موڈ بالکل ٹھیک تھا۔
’’کہیں میرے باہر جانے کے بعد صائمہ جاگ تو نہیں گئی تھی؟‘‘ یہ خیال ہی میرے لئے سوہان روح تھا۔ میرے دل میں چورتھا اس لئے میں خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا۔ میں جانتا تھا اگر کوئی بات ہوگی تو صائمہ ضرور کرے گی وہ دل میں بات رکھنے کی قائل نہ تھی۔ اور ہوا بھی یہی۔
’’فاروق! آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی ‘‘میرا دل یکبارگی زور سے دھڑکا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ بچے ناشتہ کرکے سکول جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
’’آپ تو نماز پڑھنا یوں بھول گئے ہیں جیسے مسلمان ہی نہ ہوں‘‘ اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی ۔ جو کچھ میں سمجھ رہا تھا وہ بات نہ تھی۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ میں کن راہوں پر چل پڑا تھا۔ اگر اسے میری حرکتوں کا پتا چل جاتا تو زندہ درگور ہو جاتی۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ تو اسلامی تعلیمات پر سختی سے عمل کرنے والے تھے لیکن۔۔۔جب سے ہم یہاں آئے ہیں میں آپ کے اندر خاصی تبدیلی دیکھ رہی ہوں۔ خاص کر جب سے اس منحوس جن زادی والا معاملہ شروع ہوا آپ کافی بدل گئے ہیں۔ کئی دن سے آپ نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی‘‘ اس کی آواز دکھ سے بھرا گئی۔ خفت سے میرا سر جھک گیا۔
’’کیا میں یقین رکھوں کہ آپ دوبارہ نماز شروع کر دیں گے؟‘‘ وہ میرا ہاتھ تھامے پیار سے پوچھ رہی تھی۔
’’انشاء اللہ‘‘ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ پیار سے میرا ہاتھ تھپتھپا کر وہ بچوں کے پاس چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ مجھے کیا ہوگیا ہے صائمہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔صراط مستقیم سے بھٹکنے کے بعد مصائب نے مجھے گھیرلیا تھا۔ شریف کے مرحوم والد صاحب کے الفاظ مجھے یاد تھے انہوں نے تاکید کی تھی کہ نماز سے غافل نہ رہوں میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد خرافات سے بچنے کی کوشش کروں گا اور باقاعدگی سے نماز اور تلاوت قرآن کا اہتمام کروں گا۔ یہ سوچ کر دل کو کچھ سکون ملا۔ بچوں کو سکول چھوڑ کر میں بینک روانہ ہوگیا۔ آنے جانے کے لئے میں وہی راستہ استعمال کرتا جس پر میری سادھو امر کمار اور ملنگ سے ملاقات ہوئی تھی۔ صائمہ کی باتیں ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ایسی نیک بیویاں قسمت سے ملا کرتی ہیں اور میں اس معاملے میں خوش قسمت تھا۔
اچانک میری نظر ملنگ پر پڑی۔ وہ سڑک کے کنارے بیٹھا زمین پر انگلی سے لکیریں بنا رہا تھا۔ میں نے گاڑی اس کے پاس روک دی۔ وہ بدستور اپنے شغل میں مصروف رہا۔ میں نیچے اترکر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’’بابا جی!‘‘ میں نے بڑے ادب سے اسے پکارا۔ کچی زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں بنی ہوئی تھی۔
’’کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘ میں نے آہستہ سے پوچھا۔ اس کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ہر طرف سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا ،ابھی میری انگلیاں اس کے ہاتھ سے مس ہوئی ہی تھیں کہ اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا۔ اس تھپڑ کی قوت مجھے آج بھی یاد ہے۔ میں اچھل کر دو فٹ دور جا گرا تھا۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ زمین پر گرنے کی وجہ سے کپڑے مٹی سے بھر گئے۔ دکھ سے زیادہ مجھے حیرت تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ قہر بار نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کا پُر جلال چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ آنکھوں میں بجلیاں کڑک رہی تھی۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ شفقت اور مہابنی سے پیش آتا رہا تھا۔ بلکہ جب کالی داس نے مجھے گھیر لیا تھا تو اسنے مجھے اس کی گرفت سے نہ صرف آزاد کرایا تھا بلکہ میرے پیٹ کے زخم کو اپنے لعاب سے ٹھیک بھی کر دیا تھا۔ لیکن آج وہ سراپا قہر بنا مجھے گھور رہ اتھا۔
’’غلاظت میں لتھڑے حقیر کیڑے۔۔۔‘‘ تیری جرات کس طرح ہوئی کہ مجھے ہاتھ لگائے‘‘ اس کی قہر بار آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ بس کے حادثے سے مجھے بچانے والا آج نہ جانے کس بات پر اتنا ناراض تھا۔
’’جا۔۔۔جا کر اپنی راتیں رنگین بنا۔۔۔بدکاریاں کرتا پھر ۔۔۔جن زادیوں کے لئے عیش و عشرت کا سامان پیدا کر۔۔۔اندھے گڑھے میں جا کر گرجا۔۔۔جہنم کا ایندھن بن جا۔۔۔ناعاقبت اندیش۔۔۔گندگی کھا اور اپنی ہوس پوری کر۔۔۔تجھے کیا مطلب ہے ہم فقیروں سے کیوں آجاتا ہے بار بار میرے سامنے؟ اگر آئندہ میرے پاس آیا تو یاد رکھ زمین پر چلنے کے قابل نہ رہ جائے گا‘‘ اس کی آواز میں وہ گھن گرج تھی کہ میں سوکھے پتے کی طرح کانپنے لگا۔ میرے گال پر جیسے کسی نے مرچیں بھر دی تھیں۔ کان میں شدید درد ہو رہا تھا۔ ملنگ نے مجھے بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا تھا۔ صبح صائمہ کی بات سے میں کافی شرمندگی محسوس کر چکا تھا۔ لیکن اس کے اور ملنگ کے سمجھانے میں بہت فرق تھا۔ میں ملنگ کی باتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔ جن راہوں کا مسافر میں بن چکا تھا ملنگ اس سے بے خبر نہ تھا۔ وہ بہت پہنچا ہوا بزرگ تھا۔ اس کی کرامات کا مشاہدہ کئی بار مجھے ہو چکا تھا۔
کالی داس پراسرارقوتوں کا مالک ہونے کے باوجود اس سے خوفزدہ تھا۔ رادھا جب بلی کے روپ میں تھی وہ بھی ملنگ کو دیکھ کر بھاگ گئی تھی۔ اچانک میرے دماغ میں جیسے بجلی سی چمکی۔ جس رات رادھا مومنہ کے جسم کا سہارا لے کر مجھ سے مخاطب ہوئی تھی تو احد نیند سے جاگ گیا تھا ۔اس کے منہ سے کسی مرد کی گرجدار آواز نکلی تھی۔۔۔ہاں یہ وہی آواز تھی۔ اس سے پہلے بھی ملنگ کئی بار میرے ساتھ مخاطب ہوا تھا لیکن ہمیشہ وہ بے معنی باتیں کرکے قہقہے لگاتا رہا تھا۔ آج پہلی بار وہ مجھ پر غضبناک ہوا تھا اس کی آواز بالکل بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔ عام حالت میں اسکی آواز کچھ باریک سی ہوتی لیکن جب وہ غضب میں ہوتا تو اس کی آواز گرجدار ہو جاتی۔ قہر میں ڈوبی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ میں زیادہ دیر تک اس کی پُر جلال نظروں کی تاب نہ لا سکا خود بخود میری نظریں جھک گئیں۔ دل چاہ رہا تھا وہ مجھے اور برا بھلا کہے۔ مجھے ڈانٹے۔ میں سر جھکائے منتظر تھا کہ وہ کچھ اور کہے لیکن آواز آنا بند ہو چکی تھی میری آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ دل چاہا ملنگ سے معافی مانگوں۔ نظر اٹھا کر دیکھا لیکن اب وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ وہ جا چکا تھا مجھے گردوپیش کا کوئی ہوش نہ رہا۔ آنکھیں پھاڑے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں تھوڑی دیر پہلے ملنگ موجود تھا۔
’’کیا بات ہے بھائی صاحب!‘‘ اچانک ایک مہربان سی آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں نے چونک کر دیکھا۔ ایک خوش پوش سا شخص میرے اوپر جھکا پوچھ رہا تھا۔ میں زمین پر پڑا تھا۔ ملنگ نے اس زور سے مجھے مارا تھا کہ میں اوندھے منہ زمین پر گر گیا تھا اور ابھی تک اسی حالت میں تھا۔ وہ شخص آنکھوں میں حیرت لیے مجھے دیکھ رہا تھا ۔ قریب ہی میری گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے شفیق سے چہرے والے شخص کو دیکھا۔ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔
’’کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ لگتا ہے آپ کی طبیعت خراب ہوگئی ہے‘‘ اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ میں نے ہتھیلیوں سے آنکھوں کو پونچا اور سر نفی میں ہلا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ حیرت بھری آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ پھر کاندھے اچکا کر چل پڑا۔ میں پژمردگی سے گاڑی چلانے لگا۔ دل بھر آیا تھا۔ زمین پر گرنے کی وجہ سے میرے کپڑے مٹی سے خراب ہو چکے تھے گھٹنے کے پاس پینٹ پر گوبر کا داغ لگ گیا تھا ۔اس حالت میں نہ تو میں بینک جا سکتا تھا نہ گھر واپس۔ اگر چلا بھی جاتا تو صائمہ کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ میرا دل ہر شے سے اچاٹ ہوگیا اور میں نے گاڑی یونہی ایک کچے راستے پر موڑ لی۔ موسم گرم ہونا شروع ہو چکا تھا۔ دن کودھوپ میں خاصی گرمی ہو جایا کرتی۔ ملتان اور اس کے گردونواح کی گرمی تو ویسے بھی مشہور ہے۔ میں نے ایک درخت کے سائے میں گاری روک لی اور باہر نکل کر کچی زمین پر بیٹھ گیا۔
’’کس وچار میں گم ہے بالک! ‘‘ اچانک میرے پیچھے سے کالی داس کی آواز آئی۔ میں اپنی سوچوں میں غرق تھا۔ بری طرح اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کالی داس ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ لیے گہری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔
’’کس بات کی چنتا بیاکل کر رہی ہے؟‘‘ اس نے ایک بار پھر پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا لیکن منہ سے نہ بولا۔’’کیا اپنے متر کو بھی نہ بتائے گا؟‘‘ اس نے اصرار کیا۔
’’ایک بہت مخلص دوست مجھ سے ناراض ہوگیا ہے۔‘‘ نہ جانے کس طرح یہ الفاظ میرے منہ سے نکل گئے۔ وہ کچھ میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر اسکے ہونٹوں پر حقارت بھری مسکراہٹ چھا گئی۔
’’اس مورکھ کی بات کا کیا برا منانا وہ تو ۔۔۔‘‘
’’بکواس بند کر کالی داس! تو کیا جانے وہ کون ہے؟‘‘ میں اس کی بات کاٹ کر غرایا۔’’اگر ایک لفظ بھی اس کے بارے میں کہا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘ میری بات سن کر کالی داس کی آنکھوں میں آغ بھڑک اٹھی۔ غیض و غضب سے چہرہ تپ گیا۔ کچھ دیر وہ مجھے قہر بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر اس کی سرد آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
’’شاید تو جانتا نہیں اس سمے کس سے بات کررہا ہے؟ کیا اتنی جلدی سب کچھ بھول گیا۔ جیادہ سمے تو نہیں بیتا ابھی۔۔۔کیا ایک بار پھر میں تجھے بتاؤں میں کون ہوں؟‘‘
’’جانتا ہوں تو گندی قوتوں کا ماہر ہے۔ لیکن تو بھی یہ بات یاد رکھ میں تیرا غلام نہیں ہوں کہ ہر وقت تیرے آگے ہاتھ باندھے کھڑا رہوں۔‘‘ گناہ کا احساس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ پچھتاوے بری طرح مجھے گھیر چکے تھے۔ انجام سے بے خبر میں کالی داس کو بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا۔ مجھے کالی طاقت والے ان وحشیوں سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔ انہی بدبختوں کی وجہ سے آج میں انسان سے جانور بن چکا تھا۔ اب مجھے کسی بات کی پرواہ نہ رہی تھی۔ ملنگ نے جیسے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔ میں اس غفور الرحیم اللہ سے ڈرنے کی بجائے ان شیطانوں سے خوفزدہ ہوگیا تھا۔ (جاری ہے)
جنات کے چنگل میں پھنسے خاندان کی کہانی۔ ۔ ۔ قسط نمبر72 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں