دو سال سے لکھ رہا ہوں کہ مقتدرہ نے کچھ فیصلے کر رکھے ہیں اور وہ ان پر بحسن و خوبی عمل پیرا ہے۔ جسٹس بندیال کی سوئی 90 دن میں انتخاب (صرف پنجاب، خیبر میں نہیں) پر اٹکی ہوئی تھی تو بھی انہیں اسٹالن کے اس قول کی روشنی میں مقتدرہ کا فیصلہ یاد دلایا تھاکہ "اچھا تو پوپ میرے فیصلے کی مخالفت کرے گا؟ پوپ کے پاس کتنے ڈیویژن فوج ہے؟" جج ہوں یا جرنیل، یہ دونوں انتظامیہ پارلیمان اور عوام کو کچھ مدت کے لیے یا کچھ شعبہ جات میں تو زچ کر سکتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں۔ اوسط درجے کے وکیلوں نے عسکری آب حیات سے "فیض" یاب ہوتے ہی وہ پھدکیاں لگائیں، وہ کدکڑے نکالے کہ گویا آئینی حلف سے بے نیاز وہ کسی جم میں اٹھکیں بیٹھکیں کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کچھ معززین تو اتنا آگے نکل گئے کہ ایک سیاسی جماعت کو سہولیات بہم پہنچاتے پہنچاتے وہ حساس ادارے کو بھی سرعام لپیٹ میں لے آئے۔
سپریم کورٹ میں صورت حال تو اور بھی ناگفتہ بہ۔ آئینی حلف سے لبریز آٹھ معززین 1977 کے مدعا علیہ مارشل لا کو نوازنے والی تب کی عدلیہ سے بھی آگے نکل گئے۔ اس عدلیہ نے مدعا علیہ کو بن مانگے آئینی ترمیم کا حق دے دیا تھا۔ یہی کام 2000 کی عدلیہ نے بھی کیا۔ ان دونوں مواقع پر ایک دھندلا سا، ایک اضطراری سا، اگرچہ ناقابل قبول ہی سہی جواز نکالا جا سکتا تھا کہ صاحب بندوق بردار آئین شکن سے جان کا خطرہ نہ سہی، نوکری چھن جانے کا تیقن موجود تھا۔ 2024 کے یہ آٹھ معززین ماضی کی دونوں آئین شکن عدلیہ سے ناقابل یقین حد تک آگے نکل گئے۔مارشل لائی عدلیہ نے فریقین میں سے ایک کو آئینی ترمیم کا حق دیا تو وہ کہہ سکتی ہے کہ ہمیں دھمکایا گیا تھا اور یہ کہ ہم نے جو کچھ دیا مقدمے کے حصار کے اندر ہی کے ایک فریق کو دیا لیکن 2024 کے ان آٹھ معززین نے فیصلہ اس سیاسی جماعت کے حق میں دیا جو کسی بھی مرحلے پر فریق مقدمہ نہیں تھی۔
فیصلہ اتنا اچھوتا، مبہم اور ناقابل عمل تھا کہ الیکشن کمیشن سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ فریق مقدمہ سنی اتحاد کونسل کے ان 41 ارکان کو کمیشن پی ٹی آئی کا رکن کیسے قرار دے کہ جب وہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا حلف اٹھا چکے تھے۔ الیکشن کمیشن نے فیصلے کی وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس رجسٹرار وغیرہ کسی کو معلوم نہیں کہ ان آٹھ ججوں نے کہاں سماعت کی جس کے نتیجے میں 13 کی بجائے از خود قائم شدہ نئے آٹھ رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کو سنے بغیر عسکری ادارہ تعلقات عامہ بن کر پریس ریلیز جاری کر دیا۔ تحریک انصاف کا ہر چھوٹا بڑا پیپلز پارٹی کے دہری "سیاسی" رکنیت والے لاہوری ایڈووکیٹ کی دہی جانے والی نت نئی تاریخوں پر کان لگائے کسی معجزے کا منتظر ہے۔ ایک کے بعد ایک نئی تاریخ کا لامتناہی سلسلہ ہے کہ ختم ہونے میں آ ہی نہیں رہا۔ ان لوگوں کی امید کی آخری کرن جسٹس منصور علی شاہ تھے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اب یہ لوگ امریکی صدارتی انتخاب کے نتائج کے منتظر ہیں۔ جھولیاں پھیلا پھیلا کر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی دعائیں کر رہے ہیں۔
قارئین کے لیے پیش گوئی اور چیلنج وغیرہ تو نہیں، محض تجزیہ سمجھ لیجئے۔ اڑھائی سال قبل جنرل باجوہ کا اپنے فارمیشن کمانڈروں کے ساتھ تین گھنٹوں کا طویل اجلاس یاد کیجئے۔ اسی اجلاس کے بعد میں نے جو رائے قائم کی تھی اس پر آج بھی قائم ہوں۔ افواج پاکستان کو اباؤٹ ٹرن کا حکم مل چکا ہے۔ اسی اباؤٹ ٹرن کی ایک مثال عسکری ادارہ تعلقات عامہ کی وہ پریس کانفرنس ہے جس میں آئی ایس آئی کے چیف بھی شریک تھے۔ وہ جملہ بھی یاد کر لیجئے: "ماضی میں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی لیکن۔۔۔۔۔۔۔" البتہ قارئین یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ غلطیوں بھرے 75 سالہ سفر کے بعد واپس چھاؤنی پہنچنے کے لیے 75 نہیں تو ان لوگوں کو 10 سال لا محالہ درکار ہیں۔ خلا پر کرنے والے سبھی کچھ زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہیں۔
چیف جسٹس کی الوداعی تقریب میں آٹھ مذکورہ ججوں میں سے چار کی عدم شرکت ایک برہان قاطع ہے کہ کم از کم ان چار ججوں کا مذکورہ فیصلہ مطلقاً سیاسی خواہشات اور توقعات میں لتھڑا ہوا تھا۔ باقی کسر جسٹس منصور علی شاہ کے خط نے نکال دی۔ بلاول بھٹو زرداری کی طرح میں ان کے بارے میں خاصہ خوش گمان رہا تھا۔ قارئین یاد کر لیں۔ دو جولائی 2023 کو میں نے کالم بعنوان "جسٹس منصور شاہ کو سات سلام" تحریر کیا تھا۔ تحریک انصاف کے حق میں کیے گئے اس فیصلے کے باوجود میں یہ سمجھتا تھا کہ موصوف کسی حد تک تو ادارہ جاتی رکھ رکھاؤ والے ہوں گے۔ اپنے ادارے کی توقیر کی خاطر وہ باقی سات کے اپنے ٹولے کو لے کر نئے چیف کے دست و بازو بنیں گے، دو کروں میں منقسم سپریم کورٹ کے اندر موجود خلیج ختم کرنے میں وہ قائدانہ کردار ادا کریں گے۔ لیکن سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھا گیا اپنا خط عام کر کے انہوں نے اپنی شخصیت کے وہ گوشے بھی منکشف کر دیے جو مخفی رہتے تو ہم ابکائیوں سے بچ جاتے ہیں۔ موصوف جج الہامی فرمان کو بھی نظر انداز کر گئے: "۔۔۔اور تم پہلو کے ساتھی (صاحب الجنب) سے حسن سلوک کرو (النساء 36)۔ محترم شاہ جی، بوقت رخصت پہلو کے ساتھی کو پھول پیش کیے جاتے ہیں، یہ آپ کیا کر گزرے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے منتظر ان تمام مذکورہ اصحاب کے لیے اب ایک ہی راستہ باقی ہے۔ وقت کی نبض بروقت پہچان لینے والے اپنے سیانے پیش رو جسٹس اعجاز الحسن کی اقتدا۔ ٹرمپ جیتے یا ہارے، جگالی کرتے اونٹ کے متوقع طور پر گرتے ہونٹ سے امیدیں باندھے گیدڑ کو کچھ نہیں ملتا۔ اپنی تقرری کے ایک سال بعد چیف آف آرمی اسٹاف نے پورے ایک سال بعد خاموشی سے امریکہ کا دورہ کیا۔ کچھ نہ کچھ طے ہو چکا ہے اور اب سناٹا ہی سناٹا۔ اس وضاحتی دورے کے بعد ملک میں اسی تسلسل سے "ریاستی امور" چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان شروع سے اب تک امریکی حلقہ اثر کا اسیر رہا ہے، اب بھی ہے اور اگلے دو ایک عشرے ایک حد تک رہے گا۔ بتدریج گر ہیں کھولتا جا رہا ہے۔
ریاستی تعاون نہایت پیچیدہ اور گنجلک سفارتی و عسکری موضوع ہے۔ اس کی تفہیم بار کے تربیت یافتہ اور چیمبر سے اٹھ کر عسکری چشمہ آب سے "فیض" یاب افراد کے لیے ناممکن ہے۔ تاہم اپنے ان تمام "بصیرت افروز" ملفوظات کے باوجود مجھے کسی سے خود اپنے حق میں کسی اچھائی کی توقع نہیں ہے۔ ابھی کچھ عرصہ ہمیں دھواں دار (صرف دھواں دار تباہ کن نہیں) عدالتی دھماکے سہنا پڑیں گے۔ پھر یاد دلا دوں کہ ریاست نے کچھ فیصلے کر رکھے ہیں جن پر وہ اڑھائی سال سے، یعنی جنرل حافظ عاصم منیر کی تقرری سے قبل، بحسن و خوبی عمل پیرا اور کامیابی کی طرف گامزن ہے۔