ذہین بچے،  حسین کلیاں ،  گلاب پتے بکھر گئے ہیں۔۔۔

Oct 27, 2024 | 09:22 PM

یہ زلزلے شہر روشنی کے ،  بدل گئے نالۂ وفغاں میں
نوائے غم ہے ہر اک صدا میں
مہکتی شاموں کے پھول چہرے،  دھویں کے بادل میں اٹ گئے ہیں
محبتوں کی امین دھرتی میں جامِ نفرت چھلک رہا ہے
سہاگ کتنے اُجڑ گئے ہیں ،  یتیم بچے بِلک رہے ہیں
اُداس مائیں ،  عظیم بچوں کی سرد لاشوں پہ بال کھولے تڑپ رہی ہیں
جگر کے ٹکڑے،  نجانے کتنے عظیم ماؤں کے بازوؤں میں
لہو میں رنگے تڑپ تڑپ کر گزر رہے ہیں
حیا کی پتلی جوان بیٹی ،  سڑک پہ بکھری حریص نظروں سے منہ چھپائے
روائے عصمت کو ڈھونڈتی ہے
جواں سہارے،  ضعیف آنکھوں سے خون بن کر حسین دھرتی پہ گر رہے ہیں
بکھر گئے ہیں ،  وہ خواب سارے،  جو ہم نے دیکھے تھے خون دے کر
دیار تاباں نظر تجھے کس کی کھاگئی ہے
 سکوں ہمارا تباہ کر کے خوشی سے دشمن اُچھل رہا ہے
مہکتا گلشن حسین دھرتی کا جل رہا ہے
وطن کی بیٹی کے سر سے چادر ،  بدن سے زیور بھی چھن گیا ہے
ذہین بچے،  حسین کلیاں ،  گلاب پتے بکھر گئے ہیں
شراب،  رشوت،  قماربازی،  حیا،  تحفظ کا ذکر چھوڑو
یہاں تو مسجد میں ہیں دھماکے،  جنازہ گاہیں لہو لہو ہیں
گھروں میں رہنا ہوا ہے مشکل،  گھروں سے باہر بھی موت رقصاں
وطن کا دشمن اُٹھائے سرہے ،  مگر سیاست بھی بام پر ہے
غرض کے اندھے ،  سبھی وڈیرے سیاسی جلسوں میں نام اپنا کمارہے ہیں
مگر یہ دعویٰ ہے حکمراں کا  ،  یہ مملکت ہے عظیم جس میں
ہماری طاقت جمہوریت ہے
 اگریہی وہ جمہوریت ہے
 تو میری توبہ ہے زندگی سے
کلام :گل بخشالوی (کھاریاں)

مزیدخبریں