ایک دن ایک عورت حضرت ابراہیم بن یوسفؒ کی طرف دیکھنے لگی۔ آپ نے فرمایا ”کہ تجھے کچھ کام ہے؟“
اس نے کہا ”نہیں“ مگر تم علماءکا قول ہے کہ عالم کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ میں بھی اس خیال سے تجھ کو دیکھتی ہوں۔“
یہ سن کر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے پھر فرمایا ”اس عور ت کی غلطی ہے کیونکہ جن لوگوں کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ وہ کب کے قبروں پر پڑے ہیں۔“
٭٭٭
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ کے کسی دوست نے ملنا چھوڑدیا پھر چند روز کے بعد آپ کی ملاقات کو آیا اور ایک شخص کی غیبت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا ”بخدا تیرا نہ ملنا ہی بہتر ہے تو نے میرے دوست کی نسبت میرے دل میں بغض ڈال دیا اور میرے دل کو غافل کردیا۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 128 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک مرتبہ وزیر کا مصاحب میر ابوالفضل شرابی حضرت قطب الدین اولیاء کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا ”شراب نوشی سے توبہ کرلے۔“
اس نے جواب دیا ”میں ضرور تائب ہوجاتا لیکن جب وزیر کی مجلس میں دور جام چلتا ہے تو مجبوراً مجھ کو بھی پینی پڑتی ہے۔“
آپ نے فرمایا ”جب اس کی محل میں تجھے شراب نوشی پر مجبو رکیا جائے، تو اس وقت میرا تصور کرلیا کرو۔“
چنانچہ جب وہ توبہ کرکے گھر پہنچا تو دیکھا کہ تمام جام و سبوشکستہ پڑے ہیں اور شراب زمین پر بہہ رہی ہے۔ یہ کرامت دیکھ کر وہ بڑا متاثر ہوا اور وزیر کے پوچھنے پر تمام واقعہ بیان کردیا۔ اس کے بعد سے وزیر نے کبھی اس کو شراب نوشی پر مجبور نہیں کیا۔
٭٭٭
حضرت خواجہ عبدالواحدؒ بڑے عالی مقام شیخ تھے۔ ایک دفعہ فقرا کی ایک جماعت پر شدت گرسنگی کا غلبہ تھا۔ حضرت کی خدمت میں حاضر تھے۔انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ حلوہ کھانے کو ملے۔ یہاں کچھ بھی نہ تھا۔ آپ نے آسمان کی جانب رُخ کیا۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس جماعت کے بارے میں دعا کی۔ دعا کرنے کی دیر تھی کہ آسمان سے سرخ سرخ دیناروں کی بارش ہونے لیگ۔
حضرت نے فرمایا ”حلوہ کیلئے جتنے دینار درکار ہیں اٹھالو اور حلوہ خرید لاﺅ۔ چنانچہ اس کے مطابق عمل کیا گیا۔
ان سب فقراءنے حلوہ کھایا لیکن خواجہ نے اسے ہاتھ تک نہ لگایا۔ بعد میں آپ کے عدم تناول کا سبب معلوم ہوا اور وہ یہ کہ حلوہ چونکہ آپ کی کرامت کے ظہور کا نتیجہ تھا اس لیے آپ نے یہ گوارا نہیں کیا کہ جو شے بزور کرامت حاصل کی گئی ہے اسے بطور غذا استعمال کریں۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن اوہمؒ نے کشتی میں سفر کیا۔ جیب میں پیسے نہ تھے۔ ملاح نے آپ سے کرایہ طلب کیا۔ آپ نے دو رکعت نماز اد اکی اور خدا سے دعا مانگی۔ ”اے اللہ! مجھ سے یہ کچھ مطالبہ کرتے ہیں۔“
دریا کے دونوں کناروں پر جو ریت تھی سونے میں منتقل ہوگئی۔ آپ نے مٹھی بھر سونا لیا اور ملاح کے حوالے کیا۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 130 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں