اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 128
جب حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشتؒ کی عمر سات سال کی ہوئی تو ایک روز آپ کے والد آپ کو شیخ جمال الدین خنداں روؒ کی خدمت میں لے گئے۔ اس وقت آپ کی خدمت میں کسی نے کھجوریں بھجوائی تھیں۔
آپ نے حکم دیا کہ کھجوریں حاضرین میں تقسیم کردی جائیں۔ ایک بزرگ کا تبرک تھا۔ سب حاضرینش وق سے کھانے لگے۔ حضرت مخدوم جہانیاںؒ بھی عقیدت کےس اتھ کھاتے رہے۔ جب کھجوریں ختم ہوگئیں تو آپ نے گٹھلیاں کھانی شروع کردیں۔
حضرت جلال الدینؒ کچھ دیر تک خاموشی سے دیکھتے رہے پھر آپ نے پوچھا۔ بچے گٹھلیاں پھینک دینے کی چیز ہوتی ہیں۔ انہیں کس لیے کھارہے ہو؟“
حضرت مخدوم چند لمحے سر جھکائے بیٹھے رہے پھر فرمایا ”یہ کھجوریں مجھے آپ کے ہاتھ سے نصیب ہوئی ہیں اس لیے ان کی گٹھلیاں بھی فیض سے خالی نہیں۔“
حضرت مخدوم کا یہ جوبا نس کر پوری محفل پر سناٹا چھاگیا۔ حضرت خذاں روؒ حضرت مخدومؒ کا جواب سن کر مسکرائے اور پھر محبت سے فرمایا ”صاحبزادے! خدا کا شکر ہے کہ میری آنکھوں نے دھوکہ نہیں کھایا۔ خدا تمہیں اپنی پناہ میں رکھے اور تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 127 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دن دوران وعظ دو افراد اس خیال سے حضرت قطب الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ سے یہ دعا کروائیں گے کہ ہمیں دنیاوی عیش وعشرت میسر آجائے لیکن آپ نے ان دونوں کو دیکھتے ہی فرمایا کہ مجھ سے صرف خدا کے واسطے ملاقات کے لیے حاضر ہوا کریں۔ دنیا کی طلب لے کر میرے پاس نہ آئیں۔ کیونکہ اس نیت سے میرے پاس آنے والوں کو کسی قسم کا ثواب حاصل نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭
ایک یہودی مہمان خود کو مسلمان ظاہر کر کے حضرت قطب الدین اولیائؒ کے یہاں مقیم ہوگیا اور اس خوف سے کہ کہیں اس کا فریب آپ پر ظاہر نہ ہوجائے مسجد کے ستون کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا اور آپ روزانہ اس کے لیے کھانا بھجوادیا کرتے لیکن چند روز قیام کے بعد جب اس نے رخصت کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا ”اے یہودی تجھے یہ جگہ پسند نہیں آئی؟“
اس نے پوچھا کہ آپ کو میرے یہودی ہونے کا علم کیسے ہوگیا اور جانتے بوجھتے آپ نے میری خاطر مدارات کیوں کی؟“
آپ نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ دنیا میں مسلم و کافر دونوں کو رزق پہنچاتا ہے۔
٭٭٭
حضرت وہب بن متنبہؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ملک الموت ایک بہت بڑے ظالم و جابر کی روح قبض کرکے لے گئے۔ وہ جارہے تھے۔ فرشتوں نے ان سے پوچھا کہ تم نے ہمیشہ جانیں قبض کیں۔ تمہیں کبھی کسی پر رحم بھی آیا۔“
انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ ترس مجھے ایک عورت پر آیا جو تنہا جنگل میں تھی جب ہی اس کے بچہ پیدا ہوا تھا۔ مجھے حکم ہوا کہ اس عورت کی جان قبض کرلوں۔ مجھے اس عورت کی موت اور اس کے بچے کی تنہائی پر بڑا ترس آیا کہ اس بچے کا اس جنگل میں جہاں کوئی دوسرا نہیں ہے، کیا بنے گا۔“
فرشتوں نے کہا ”یہ ظالم جس کی روح تم لے جارہے ہو، وہی بچہ ہے۔“
ملک الموت حیرت میں رہ گئے، کہنے لگے ”مولیٰ! تو پاک ہے، بڑا مہربان ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔“
٭٭٭
حضرت موسیٰ اشعریؒ نے اپنی موت سے پہلے سخت ریاضت شروع کردی تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اپنے نفس پر کچھ نرمی کریں۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 129 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں