اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 127
ایک مرتبہ حضرت مخدوم جہانیاںؒ جہاں گشت مدینہ شریف تشریف لے لیے۔ مدینہ شریف کے لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کون ہیں؟
آپ نے جواب دیا ’’میں سید ہوں‘‘
اہالیان مدینہ شریف نے آپ کو سید تسلیم کرنے میں کچھ تامل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے روضہ مبارک آنحضرت ﷺ پر لے چلیں۔
جب آپ بمعہ سادات مدینہ شریف روضہ مبارک آنحضرت ﷺ کے دروازہ پر پہنچے تو آپ نے نہایت ادب سے بارگاہ نبوت میں عرض کیا۔ الصلوٰاۃ والسلام علیک یاجدی۔
آں حضرت ﷺ نے جواب فرمایا۔ وعلیک السلام یاولدی انت منی وقرۃ عینی۔
مدینہ شریف کے لوگوں نے جب حضور نبی کریم ﷺ سے آپ کے حق میں یہ محبت بھرے الفاظ سنے تو پھر آپ کے معتقد ہوگئے۔ مدینہ شریف میں مقیم ہونے کی دعوت دی۔
***
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 126 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت سید عبداللطیف شاہؒ بری امام بچپن میں اپنے خاندان کی بھینسیں چراتے تھے ایک دن آپ ایک درخواست کے سائے میں بیٹھے تو نیند آگئی اور بھینسوں نے ایک کھیت میں گھس کر اس کا صفایا کردیا۔ کھیت کے مالک نے آپ کے والد سے شکایت کی۔ وہ فوراً آپ کے پاس آئے اور آپ کو نیند سے جگا کر سخت سست کہا۔
حضرت امامؒ نے فرمایا ’’اس شخص کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ کھیت میں جاکر دیکھ لیجئے۔‘‘ آپ کے والد کسان کو لے کر اس کے کھیت پر گئے تو اس میں فصل کھڑی لہلہا رہی تھی، ایک پودے کا بھی نقصان نہیں ہوا تھا۔ کسان یہ کرامت دیکھ کر اسی وقت اپنے خاندان سمیت آپ کا مرید ہوگیا۔
***
خلیفہ متوکل نے سارے علماء کو مع حضرت احمد بن معدلؒ کو اپنے دربار میں طلب کیا اس پر سارے لوگ آکر بیٹھ گئے۔ جب سارے لوگ آگئے تو ان سب ے بعد خلیفہ دربار میں داخل ہوا۔
خلیفہ کے داخلہ پر سارے عوام و خواص اس کی تعظیم کے لیے اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہوگئے لیکن حضرت احمد بن معدلؒ اپنی جگہ بیٹھے رہے اور کھڑے نہ ہوئے۔ یہ دیکھ کر خلیفہ نے اپنے وزیر عبیداللہ سے مخاطب ہوکر کہا ’’کیا یہ شخص ہماری بیعت نہیں کرچکا۔‘‘
عبید اللہ بولا ’’یہ حضرت احمد بن معدلؒ ہیں۔ جو بیعت تو کرچکے ہیں مگر ان کی نظر بہت کمزور ہے۔‘‘
یہ سنا تو حضرت احمد بن معدلؒ فوراً بولے ’’میری آنکھیں بالکل ٹھیک ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ کو خداوند کریم کے عذاب کی گرفت سے بچاؤں کیونکہ حدیث شریف میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ’’جو شخص لوگوں سے یہ امید رکھت اہے کہ وہ اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوا کریں۔ اس شخص کا ٹھکانہ دوزخ بنتا ہے۔‘‘ خلیفہ متوکل نے یہ سنا تو ان کے برابر آکر بیٹھ گیا۔
***
نقل ہے حضرت سلمان رازیؒ سے کہ ایک مرتبہ میں زیارت انبیاء علیہم السلام بیت المقدس جانا چاہتا تھا۔ جب سفر کے لیے روانہ ہوا تو راستے میں ایک لڑکی ملی۔ مجھ سے بولی کہ ’’اے شیخ کہا جاتے ہو؟‘‘
میں نے اس پر اپنا ارادہ ظاہر کیا جس پر وہ بولی کہ آؤ مصافحہ کرلو اور ساتھ ہی اپنی آنکھیں بھی بند کرلو۔ چنانچہ میں نے اس کے کہنے پر عمل کیا جب آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو بیت القدس میں پایا۔ یہ دیکھ کر میں سخت حیران ہوا۔ اس وقت دو تین درہم اکل حلال سے میرے پاس تھے، اس کو دینے لگا تو اس نے معذرت کی۔ پھر مسکراتے ہوئے بولی ’’مجھ کو ان کی حاجت نہیں ہے۔‘‘
اچانک اس کے ہاتھ پر نظر پڑی تو درہم و دینار سرخ اس کے ہاتھ پر دکھائی دئیے۔ پھر اس نے کہا ’’کیا اللہ پر بھروسہ نہیں تھا، جو گھر سے خرچ لے کر نکلے۔‘‘
***
ایک دن حضرت مجدد الف ثانیؒ تنہا بیٹھے تھے کہ شہزادہ خرم (شاہ جہاں) چھپتا چھپاتا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ حضرت یہ عجیب بات ہے کہ میں نے ہمیشہ آپ کی طرف داری کی مگر آپ نے میرے حق میں دعا نہ فرمائی، بادشاہ کے حق میں دعا فرمادی۔ آپ نے جواب دیا ’’مت گھبرا۔ مجھے اللہ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ تو عنقریب تخت پر بیٹھے گا اور تیرا لقب شاہ جہان ہوگا۔‘‘
شہزادہ بہت خوش ہوا اور اس نے تبرک کے طور پر آپ کی دستار لے لی۔ جو عرصے تک مغل بادشاہوں کے خزانے میں محفوظ رہی۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 128 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں